خیبر پختونخوا: وزیراعلیٰ کے 3 مشیران، 2 معاون خصوصی کی تقرری معطل

اپ ڈیٹ 14 جون 2019
جسٹس اکرام اللہ خان اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے درخواست کی سماعت کی— فائل فوٹو: اے پی پی
جسٹس اکرام اللہ خان اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے درخواست کی سماعت کی— فائل فوٹو: اے پی پی

پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے 3 مشیران اور 2 معاون خصوصی کی تعیناتی معطل کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس اکرام اللہ خان اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رکنِ صوبائی اسمبلی خوش دل خان کی جانب سے دائر درخواست پر ابتدائی سماعت کرتے ہوئے مذکورہ احکامات دیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ آئین کے تحت مشیران اور معاونِ خصوصی کو حکومتی امور کے اختیارات نہیں دیے جاسکتے۔

یہ بھی دیکھیں: خیبرپختونخوا میں موروثی سیاست کی روایت برقرار

درخواست میں استدعا کی گئی کہ متعلقہ قانون اور اس قسم کی تعیناتی کے استعمال کیے جانے والے اصول و ضوابط کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

بعدازاں عدالت نے پرنسپل سیکریٹریز کے ذریعے گورنر اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا جبکہ دیگر 5 مشیران اور معاون خصوصی کو اپنا جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 26 جولائی تک کے لیے ملتوی کردی۔

عدالت کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق 13 ستمبر 2018 اور 22 جنوری 2019 کو جاری کیا گیا نوٹیفکیشن جس کے ذریعے 5 تقرریاں کی گئیں تھیں، مزید احکامت جاری ہونے تک معطل رہے گا۔

مزید پڑھیں: 'وزیراعلیٰ سے اختلافات'، آئی جی اور چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا کا تبادلہ

خیال رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی تجویز پر پہلے نوٹیفکیشن کے ذریعے گورنر خیبرپختونخوا نے ضیا اللہ بنگش کو ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے لیے، حمایت اللہ خان کو توانائی، عبدالکریم خان کو صنعت و تجارت جبکہ کامران بنگش کو سائنس ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا معاون خصوصی مقرر کیا تھا۔

بعدازاں 22 جنوری کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق اجمل وزیر وک ضم کیے گئے اضلاع کی نگرانی و تعاون کے امور اور صوبائی حکومت کے ترجمان کے طور پر مشیر مقرر کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ درخواست گزار سابق ڈپٹی اسپیکر اور سینئر وکیل ہیں جنہوں نے عدالت سے خیبرپختونخوا کے مشیر و معاون خصوصی کے قانون بتائے 1989، رول آف بزنس 1985 کے رول نمبر 33 اے کو آئین سے متصادم قرار دے کر معطل کرنے کی استدعا کی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا کابینہ کا اجلاس، قبائلی اضلاع کو ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا گیا

ان کا اپنی درخواست میں کہنا تھا کہ مشیران اور معاون خصوصی کو حکومتی اختیارات دیے گئے جن پر وہ آئین کی دفعہ 129 کے تحت عملدرآمد نہیں کرسکتے۔

اپنی درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ لفظ ’مشیر‘ کا مطلب ہے کہ وہ صرف مستقبل کے معاملات کے لیے رہنمائی فراہم اور تجاویز دے سکتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں