' ٹی وی چینلز کسی شخص کی عزت نفس مجروح نہ کریں '

14 جون 2019
خاتون سیاست دانوں کی عزت بری طرح مجروح ہورہی ہے، پیمرا — فائل فوٹو: ڈان
خاتون سیاست دانوں کی عزت بری طرح مجروح ہورہی ہے، پیمرا — فائل فوٹو: ڈان

پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے پاکستانی چینلز کو متنبہ کیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کی کارٹون، فوٹو شاپ تصاویر اور مضحکہ خیز میمز کے ذریعے اس کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے۔

واضح رہے کہ ایسے خاکوں سے زیادہ تر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیاسی رہنما متاثر ہوتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایسی ایڈوائزری سے میڈیا کو روکنا نہیں چاہیے۔

پیمرا کی جانب سے طنزیہ مواد کی تشہیر سے متعلق ایک نصحیت جاری کی جس میں کہا گیا کہ 'عوام کی نظر میں ٹی وی چینلز میں خبریں اور حالات حاضرہ کے پروگرام ایسے طنزیہ رجحان کو فروغ دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ملکی قیادت کی بدنامی ہورہی ہے جبکہ اندونی اور بیرونی سطح پر ان کی ساکھ بھی مجروح ہورہی ہے، تاہم مذکورہ معاملے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خاتون سیاست دانوں کی عزت بری طرح مجروح ہورہی ہے۔'

مزید پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنسز پر تبصرہ: پیمرا کا 14 نیوز چینلز کو نوٹس

پیمرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'تمام سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے مواد کی تشہیر سے باز رہیں جو کسی شخص، سیاسی جماعت کے رہنما یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی عزت نفس مجروح کرنے یا پھر ان کے خلاف نفرت کے جذبات ابھارنے کا باعث بنیں۔'

ریگولیٹر کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ چینل کی انتظامیہ کو ایسے مواد کے انتخاب اور میمز بنانے میں لفظوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

اس کے علاوہ پیمرا نے تمام چینلز کو آگاہ کیا کہ انہیں ایسے مواد سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے اور اسے حوالے سے متعدد شکایتیں بھی موصول ہوئیں۔

پیمرا نے متنبہ کیا کہ ایسے مواد کی تشہیر کرنے والے چینلز کے خلاف پیمرا آرڈیننس 2002 کے تحت الیکٹرنک میڈیا کے کوڈ آف کنڈٹ کی کلاسز کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نئے چیننلز کیلئے لائسنس کا اجرا، پیمرا اپنے موقف پر ڈٹ گیا

تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے پیمرا ایڈوائزری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جو کلاسز بتائی گئی ہیں وہ پہلے سے ہی نافذ ہیں۔

سیاست دانوں کے تمسخر کے نئے قوانین نہیں ہیں اور یہ عمل پاکستان میں نیا بھی نہیں، تو پھر اس ایڈوائزری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔

انہوں نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں سیاست دانوں کے کارٹون بنانے کا عمل ایک عام بات ہے، اور یہ قابل قبول بھی ہے لیکن اس ایڈوائزری کے جاری ہونے کا وقت اسے مشکوک بناتا ہے۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'مجھے خدشہ ہے کہ ایسے اقدام سے پیمرا کی طاقت میں امتیازی طور پر اضافہ ہوگا، جو جمہوریت کے لیے بھی درست نہیں ہے۔'

مزید پڑھیں: پیمرا کا نجی چینل کو وزیر اعظم کی نجی زندگی سے متعلق 'جھوٹی خبر' دینے پر معافی چلانےکا حکم

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے خیال ہے کہ اس سے موجودہ وزیراعظم عمران خان کو تنقید سے تحفظ حاصل ہوجائے گا جس کا شکار گزشتہ وزرائے اعظم ہوتے رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں کے خاکے قابل قبول ہیں، تاہم ان کی سماجی اقدار کی بھی عزت ہونی چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی چیزوں کی ایک حد ہونی چاہیے اور میڈیا کو ذمہ دار ہونا چاہیے۔


یہ خبر 14 جون 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں