پاکستان نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ 'پاکستان میں انسانی حقوق کی پوشیدہ خلاف ورزیاں' پر باضابطہ احتجاج کرتے ہوئے برطانوی میڈیا ریگولیٹر میں شکایت دائر کردی۔

2 جون کو شائع ہونے والی بی بی سی کی رپورٹ میں 9/11 کے بعد سے پاکستان میں طویل عرصے جاری 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مقامی و اعلیٰ رہنما منظور پشتین کا موقف لیا گیا۔

ڈان نیوز کو موصول ہونے والے وزارت اطلاعات کی جانب سے جاری ہونے والے شکایتی خط کی کاپی میں کہا گیا کہ بی بی سی انگریزی اور بی بی سی اردو دونوں نے ایک خبر شائع کی جو صحافتی اقدار کے خلاف اور من گھڑت تھی۔

مزید پڑھیں: ‘انسانی حقوق کی خفیہ خلاف ورزی’ پر بی بی سی کی رپورٹ جھوٹ ہے، آئی ایس پی آر

ان کا کہنا تھا کہ 'خبر میں اسٹیک ہولڈرز، باوثوق زرائع، شواہد نہیں شامل کیے گئے جو کہ بی بی سی کی ادارتی پالیسی کے خلاف ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'بی بی سی نے بغیر ثبوت خبر شائع کرکے ریاست پاکستان کے خلاف سنگین الزام تراشی کی، تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ خبر میں جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا اور حقائق کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا'۔

حکومت نے مطالبہ کیا کہ 'خبر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور بی بی سی معافی مانگ کر متعلقہ خبر اپنی ویب سائٹ سے ہٹائے'۔

انہوں نے خبر دار کیا کہ 'اگر اس خبر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو پاکستان اور برطانیہ میں تمام قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں'۔

شکایت میں کہا گیا کہ حکومت کو امید ہے کہ بی بی سی آئندہ اپنی ادارتی پالیسی اور صحافتی اقدار کا خیال رکھے گی۔

انہوں نے بی بی سی کے سائمن فریزر سے کیے گئے ای میل پر بات چیت کا بھی حوالہ دیا گیا جس کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے 3 جون کو ٹویٹ بھی کیا تھا۔

شکایت نامے میں کہا گیا کہ 'آئی ایس پی آر کی جانب سے تفصیلی گفتگو کی پیشکش کے باوجود بی بی سی نے یکطرفہ خبر شائع کی اور اپنی ہی ادارتی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں