مصر کا اقوام متحدہ پر محمد مرسی کی موت کو 'سیاسی رنگ' دینے کا الزام

19 جون 2019
یہ طبعی موت کو جان بوجھ کر سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہے، احمد حفیظ — فوٹو: اے ایف پی
یہ طبعی موت کو جان بوجھ کر سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہے، احمد حفیظ — فوٹو: اے ایف پی

مصر نے اقوام متحدہ پر ملک کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مُرسی کی وفات کو 'سیاسی رنگ' دینے کا الزام عائد کر دیا۔

اقوام متحدہ نے محمد مرسی کے کمرہ عدالت میں انتقال کی آزاد انکوائری کا مطالبہ کیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق مصر کی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد حفیظ نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر روپَرٹ کولویلے کی جانب سے محمد مرسی کی وفات کی آزاد تحقیقات کے مطالبے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ طبعی موت کو جان بوجھ کر سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہے۔'

روپَرٹ کولویلے نے گزشتہ روز مطالبہ کیا تھا کہ اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ محمد مرسی کو تقریباً چھ سال سے گرفتاری کے دوران کن حالات میں قید رکھا گیا اور ان حالات نے ان کی موت میں کیا کردار ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کسی کی بھی گرفتاری کے دوران موت فوری طور پر غیر جانبدار اور آزاد تحقیقات کا تقاضا کرتی ہے تاکہ موت کے اصل محرکات سامنے لائے جاسکیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'محمد مرسی کو جن حالات میں قید رکھا گیا اس پر کئی بار تشویش ظاہر کی گئی تھی۔'

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے کہا کہ تحقیقات میں مصر کی انتظامیہ کے محمد مرسی سے روا رکھنے جانے سلوک کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے تاکہ اس بات کی وضاحت ہو سکے کہ جن حالات میں انہیں قید رکھا گیا ان کا سابق صدر کی موت سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مشرق وسطیٰ کی ڈپٹی ڈائریکٹر میگڈالینا مُغربی کا بھی کہنا تھا کہ محمد مُرسی کی موت نے دوران حراست ان سے سلوک پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔'

انہوں نے بھی مصری انتظامیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ محمد مرسی کی موت کے محرکات معلوم کرنے کے لیے آزاد اور غیر جانبدار تحقیقات کا حکم دے۔

قبل ازیں ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر یقینی نہیں کر سکتے کہ مصر کے سابق صدر کی موت طبعی طور پر ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ٹرائل کے دوران محمد مرسی کی موت کیا طبعی تھی یا اس میں کچھ اور عوامل کا ہاتھ اس سے متعلق سوچنے کی ضرورت ہے۔'

محمد مرسی کو اہلخانہ اور اخوان المسلمین کے سینئر رہنماؤں کی موجودگی میں سخت سیکیورٹی میں گزشتہ روز سپرد خاک کر دیا گیا تھا۔

محمد مرسی کے بیٹے احمد مرسی نے 'فیس بک' پر بتایا کہ 'ہم نے ان کو طورہ جیل کے ہسپتال میں غسل دیا اور جیل میں ہی نماز جنازہ ادا کی۔

انہوں نے بتایا کہ قاہرہ کے ضلع 'نصر سٹی' میں تدفین کے امور نمٹائے، تاہم متعلقہ حکام نے محمد مرسی کے آبائی صوبے شرقیہ میں تدفین کی اجازت نہیں دی تھی۔

پاکستان اور ترکی میں محمد مرسی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ حسنی مبارک کی 3 دہائیوں پر مشتمل آمریت کے خلاف جنوری 2011 میں قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر لاکھوں افراد نے مظاہرہ کیا اور حسنی مبارک سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔

تحریر اسکوائر پر لاکھوں افراد کے مظاہروں کے نتیجے میں حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جون 2012 میں مصر کے پہلے آزادانہ طور پر منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی کو اقتدار کے صرف ایک سال بعد استعفے کے مطالبہ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جولائی 2013 میں اس وقت کے آرمی چیف اور موجودہ صدر عبد الفتح السیسی نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

محمد مرسی کو جاسوسی، مظاہرین کو قتل کروانے اور جیل توڑنے کے الزامات کے تحت عمر قید، سزائے موت اور 20 سال قید کی سزائیں بھی سنائی گئی تھی۔

مارچ 2018 میں برطانوی پارلیمانی رہنماؤں کے ایک گروپ نے محمد مرسی کی قید کی حالت زار، بالخصوص ان کے جگر کے مرض اور ذیابیطس کے لیے طبی سہولیات پر تنبیہ کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں