اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار

اپ ڈیٹ 20 جون 2019
اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے کیا تھا — تصویر: ڈان اخبار
اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے کیا تھا — تصویر: ڈان اخبار

اسلام آباد: سیاسی شخصیات، وکلا، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں اور اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے افراد نے 19 جون 2014 کو دیے گئے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کو سراہا تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے 5 سال گزر جانے کے باجود اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔

انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان (ایچ آر سی پی) کی جانب سے سینٹر فار سوشل جسٹس (سی ایس جے)، نیشل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس اور سیسل آئرس چوہدری کے تعاون سے ’اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ‘ کے عنوان سے سیمنار منعقد کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے‘

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک فریم ورک تشکیل دینے کی تجویز دی تھی۔

اس میں سب سے اہم تجویز اقلیتوں کے مفادات کے لیے ایک قومی کونسل قائم کرنے کی تجویز تھی، جسے اب تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ حقیقی مذہبی ہم آہنگی صرف اظہار رائے کی آزادی میں دانشوارانہ انفرا اسٹرکچر کے قیام سے ہی ممکن ہے، حکومتی احکامات یا عدالت کے احکامات سے نہیں۔

مزید پڑھیں: اقلیتوں کے تحفظ کیلئے کسی ہدایت کی ضرورت نہیں، پاکستان نے امریکی رپورٹ مسترد کردی

اس سلسلے میں ایچ آر سی پی کے ترجمان آئی اے رحمٰن کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد صرف اقلیتوں کے لیے باعث تشویش نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کا معاملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو ریاستیں اقلیتوں کا بہتر خیال نہیں رکھتیں وہ تباہ ہوجاتی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں اپنا ذہن تبدیل کرنا ہوگا کیوں کہ پاکستان میں مسلمان، مسلمان تک برابر نہیں کیوں امیر مسلمانوں کو غریب مسلمانوں سے بہتر سمجھا جاتا ہے اور خواتین کو بھی مردوں کے برابر حقوق حاصل نہیں۔

اس موقع پر جسٹس ناصرہ اقبال نے کہا کہ یہ صرف عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا معاملہ نہیں بلکہ اسے اخلاقیات سمجھتے ہوئے اس کی پیروی کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ملک میں اقلیتوں کے حقوق محدود ہو رہے ہیں‘

سیمینار میں آرچی بشپ جوزف ارشد نے کہا کہ گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ وسائل اور سیاسی عزم کے فقدان اور گنجائش نہ ہونے کے سبب اقلیتوں کے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکا۔

اس سلسلے میں حقوق کے لیے کام کرنے والی رضاکار طاہری عبداللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے کوٹے پر گفتگو کرتے ہیں لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعلیمی کوٹے پر عمل درآمد نہ کیا جاسکے۔

کیلاش کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے عمران کبیر نے بتایا کہ کیلاش افراد کا مذہب تبدیل کروانے کی مسلسل کوششوں کے باعث اب صرف 3 ہزار 800 کیلاشی افراد باقی رہ گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں