'پولیس اہلکار دن میں ڈیوٹی اور رات میں ڈکیتیاں کرتے ہیں'

اپ ڈیٹ 20 جون 2019
جسٹس گلزار احمد کے مطابق پولیس آخر ایسا کیا کر رہی ہے جو ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں — فائل فوٹو/اے ایف پی
جسٹس گلزار احمد کے مطابق پولیس آخر ایسا کیا کر رہی ہے جو ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں — فائل فوٹو/اے ایف پی

سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمد نے ایک کیس کی سماعت کے دوران پولیس افسران کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پورے ملک میں پولیس کا نظام فرسودہ ہوچکا ہے، زیادہ تر پولیس اہلکار دن میں ڈیوٹی اور رات میں ڈکیٹیاں کرتے ہیں، یہ ایسا کیا کرتے ہیں جو ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔

سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ٹریفک پولیس وارڈرنز کی تنخواہوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سیکریٹری خزانہ پنجاب اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس کیپٹن (ر) عارف نواز عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس گلزار احمد نے سماعت کے دوران سیکریٹری خزانہ اور آئی جی پنجاب پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ملک میں پولیس نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، پولیس آخر ایسا کیا کر رہی ہے جو ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں؟

مزید پڑھیں: پنجاب: پولیس افسران کو 120 سال پرانے اختیارات واپس مل گئے

انہوں نے ریمارکس دیے کہ 'ملک میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، لوگوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں، ایسے میں پولیس کہاں ہے؟ انہیں صرف اس بات کی فکر ہے کہ اپنے الاؤنسز کیسے بڑھانے ہیں'۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیئے کہ 'بھاری تنخواہیں لے کر بھی 2 نمبریاں کی جاتی ہیں، سرکاری افسر دفاتر میں بیٹھ کر حرام کھارہے ہیں، سب نہیں لیکن زیادہ تر پولیس اہلکار دن میں ڈیوٹی اور رات میں ڈکیتیاں کرتے ہیں'۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری خزانہ پنجاب کو شاید پتہ ہی نہیں کہ ان کا کام کیا ہے؟ پولیس اور سرکاری افسران حکومت سے تنخواہ لیتے ہیں اور عوام سے الگ کمائی کرتے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں: پنجاب پولیس اہلکاروں کی ذہنی اورجسمانی فٹنس کے لیے جم قائم

سیکریٹری خزانہ نے عدالت کو بتایا کہ منجمند ڈیلی الاؤنس بحال ہوگا لیکن اضافی بنیادی تنخواہ نہیں بڑھائی جائے گی۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کھڑے کھڑے ہی بات سے مکر گئے، پورا صوبہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کو کام کا کچھ پتہ نہیں۔

انہوں نے صوبائی سیکریٹری خزانہ کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 'ایسا نہیں ہو سکتا کہ جس کا دل کرے اور جتنا دل کرے آپ دے دیں، آپ صرف دفتر میں بیٹھ کر اپنے پیسے بنانے کی سوچتے ہیں'۔

عدالت نے کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے سرکاری وکیل کو مزید تیاری کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں