نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت دوبارہ مسترد

اپ ڈیٹ 20 جون 2019
پاکستان میں بہت اچھے ڈاکٹرز موجود ہیں پاکستانی ڈاکٹرز باہر کام کر رہے ہیں، جسٹس عامر فاروق — فائل فوٹو/ اے ایف پی
پاکستان میں بہت اچھے ڈاکٹرز موجود ہیں پاکستانی ڈاکٹرز باہر کام کر رہے ہیں، جسٹس عامر فاروق — فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت کو ایک مرتبہ پھر مسترد کردیا۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے نواز شریف کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس محمود اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل ٹرمنالوجیز نہ بتائیں بلکہ رپورٹس کی حتمی تجویز بتائیں۔

جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف کی حالت 60 فیصد سے زائد خطرے میں ہے جبکہ انجیو گرافی کے بعد نواز شریف کو مزید علاج کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی سزا معطل کرنے کی درخواست، نیب نے مخالفت کردی

انہوں نے کہا کہ ذہنی تناؤ کے خاتمے کے لیے بھی نواز شریف کا علاج ضروری ہے، جس پر جسٹس محمو د اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ مطلب یہ کہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان کا پاکستان میں علاج ممکن نہیں۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی 2 وجوہات کی بنیاد پر علاج پاکستان میں ممکن نہیں، پہلی یہ کہ نواز شریف کی طبعیت دن بہ دن خراب ہو رہی ہے اور دوسری یہ کہ ان کا شوگر لیول کنٹرول کرنے کے لیے انسولین کا استعمال کیا جاتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ اس کا مطلب نواز شریف کا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 2 بیماریوں کا علاج پاکستان میں نہیں۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ آپ نے پہلے بھی پوچھا تھا کہ جب ریلیف ملا تو علاج کیوں نہیں کروایا گیا، ضمانت کے 6 ہفتوں میں میڈیکل ٹیسٹ کرائے، بیماریوں کی تشخیص ہو چکی ہے اب ہمیں علاج کروانا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو دل کی تکلیف ہے شریانیں بند ہیں، ڈاکٹروں کے مطابق دل کی شریانوں میں بندش بڑھ رہی ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ہارون کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کو دل کے دورے سے بچانے کے لیے اسٹنٹس ڈالنے کی ضروری ہے، اسٹنٹ ڈالنے کے بعد نواز شریف کے خون کے بہاؤ میں بندش ختم ہوسکتی ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا شوگر لیول برقرار رکھنے کے لیے ان کے پاس ہر وقت ایک اٹینڈنٹ ہونا چاہیے، وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہیں جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ذہنی تناؤ سے نواز شریف کا مرض مزید بڑھ سکتا ہے، طبی ماہرین نے تجویز دی ہے کہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف کو ضمانت کیلئے اضافی دستاویزات جمع کرانے کی اجازت

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی نئی رپورٹس الرازی لیب کی ہیں جو تصدیق شدہ ہیں۔

عدالت میں دوران سماعت خواجہ حارث کی جانب سے ڈاکٹر ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال کی رپورٹ بھی پڑھ کر سنائی گئیں۔

شریف میڈیکل سینٹر کی جانب سے نواز شریف کی بیماریوں سے متعلق علاج کرنے کیلئے رائے دی گئی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اس رپورٹ سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ بیماری کی پہلے کیا صورتحال تھی اور اب کیا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں بہت اچھے ڈاکٹرز موجود ہیں پاکستانی ڈاکٹرز باہر کام کر رہے ہیں۔

اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ وہ ہی بات ہے جیسے کہ پاکستان کا میچ انڈیا سے ہوتا ہے تو پریشر ہوتا ہے، جب کسی اور ٹیم سے ہوتا ہے تو کھل کر کھیلتے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا جو علاج ہونا ہے وہ ملک میں دستیاب نہیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ لگ رہا ہے کہ مریض کو مرضی تو ہے لیکن ڈاکٹرز ذمہ داری نہیں لینا چاہ رہے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ سابق وزیراعظم سال 2000 سے مریض ہیں اور کوئی اس بات کو جھٹلا نہیں سکتا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف نے درخواست ضمانت کی جلد سماعت کیلئے دوسری مرتبہ عدالت سے رجوع کرلیا

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اس بات کا کوئی جھگڑا نہیں کہ وہ مرض میں مبتلا ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جنرل (ر) اظہر محمود کیانی سمیت 18 ڈاکٹروں کے تصدیق شدہ خطوط اور رپورٹس موجود ہیں، اپنے شعبوں کے ماہرین 18 ڈاکٹروں میں بیرون ملک کے ڈاکٹرز کے خطوط بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سندھو نے نواز شریف کو 13 بیماریوں کی نشاندہی کی ہے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پاکستانی ڈاکٹرز نے تو نواز شریف کے ٹیسٹ کیے تو ان کی رپورٹس زیادہ اہمیت ہو گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ کوئی ایسا علاج ہے جس سے دل دوبارہ جوان ہو جائے اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ابھی تک تو ایسا نہیں، لیکن ہو بھی سکتا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف دسمبر میں 70 سال کے ہونے والے ہیں، انہیں جان لیوا بیماریوں کا سامنا ہے۔

طبی بنیادوں پر ضمانت سے متعلق مقدمات کا حوالہ

وکیل نے ذاکر خان اور میاں منظور وٹو کے کیسز کا حوالہ دیا، طبی بنیادوں پر ضمانت سے متعلق 2001 اور 1998 کے کیسز کا حوالہ بھی دیا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس پہلے والے کیس سے کتنا مختلف ہے جس پر خواجہ حارث کے موجودہ ضمانت کی درخواست کے پہلے والی درخواست سے مختلف ہونے پر دلائل دیے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اس سے قبل کی درخواست ضمانت میں اس طرح کی زندگی کے لیے خطرے والی رپورٹس نہیں تھیں، جب نواز شریف ہسپتال میں داخل تھے تو انہوں نے کبھی ضمانت کا نہیں کہا۔

وکیل نے کہا کہ نواز شریف نے اپنی مرضی کے ہسپتال کا کہا تھا، اگر آپ مریض ہوں اور علاج آپ کی مرضی سے ہو رہا ہو تو کوئی مسئلہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت ملی، علاج کے لیے ڈاکٹر عاصم کا نام ای سی ایل سے بھی نکالا گیا۔

سماعت کے دوران نواز شریف کو علاج کے لیے باہر جانے کے لیے خواجہ حارث کا پرویز مشرف کیس کا حوالہ دیا، پرویز مشرف کا نام بیرون ملک علاج کے لیے ای سی ایل سے نکالا گیا۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ہے اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جی، میرا خیال ہے جب برطانیہ سے واپس آئے تو اس دوران ای سی ایل پر ڈالا گیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لیے تو الگ سے سماعت ہوگی ابھی عدالت کے سامنے نہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ای سی ایل کا معاملہ چھوڑ دیں، سزا معطلی پر دلائل دیں۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر کسی ملزم کو ناقابل علاج مرض لگ جائے تو اس کی طبی بنیادوں پر ضمانت دی جا سکتی ہے خواجہ حارث نے جواب دیا کہ بنیادی آئینی حقوق کے مطابق جب کسی ملزم کو ناقابل علاج بیماری ہو تو اسے رہا کر دینا چاہیے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی طبی حالت درست ہے، جیل سپرنٹنڈنٹ اور میڈیکل افسر کا جواب جمع

خواجہ حارث نے کہا کہ اگر ملزم کو کینسر ہو جائے تو اسے جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ نواز شریف کو ضمانت دے کر بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ لیکن آپ کی درخواست میں بیرون ملک جانے کی کوئی استدعا نہیں کی گئی۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے عدالت میں موجود پراسیکیوٹر قومی احتساب بیورو (نیب) جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف کو 6 ہفتوں کی ضمانت دے کر علاج کی سہولت دی گئی، وہ اس دوران اپنی مرضی سے علاج کرواسکتے تھے، ضمانت صرف ٹیسٹ کے لیے نہیں علاج کے لیے تھی۔

جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ 4 یا 5 میڈیکل بورڈز کی رپورٹس گذشتہ سماعت پر سامنے آئی تھیں، عدالت نے نواز شریف کیس کے علاوہ دیگر تمام کیسز لیفٹ اوور کر دیے۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست میں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی استدعا کی، سپریم کورٹ نے استدعا مسترد کردی تھی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اسی طرح کی میڈیکل رپورٹس اور اسی بنیاد پر نظرثانی اپیل کی گئی، سپریم کورٹ نے اسی نوعیت کی درخواست مسترد کی۔

جہانزیب بھروانہ نے کہا اسلام آباد ہائی کورٹ کا نوازشریف کی گذشتہ ضمانت کی درخواست پر فیصلہ کالعدم نہیں ہوا، سپریم کورٹ نے نواز شریف کو مشروط ضمانت دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا گذشتہ فیصلہ ابھی بھی آن فیلڈ ہے، سپریم کورٹ میں جو نظرثانی اپیل دائر ہوئی وہی یہاں دائر ہوئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ صرف ایک رپورٹ الرازی ہیلتھ کئیر لاہور کی نئی سامنے لائی گئی، درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ یہ نہیں کہتا کہ نواز شریف کو فوری علاج کی ضرورت ہے، جس پر جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ یہی بات کررہے ہوں جو سپریم کورٹ کررہی تھی تو کیا ضمانت مسترد کردی جائے؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے ایک اسٹینڈرڈ قائم کیا کہ مجرم کی میڈیکل رپورٹس میں حالت خراب ہو تو ضمانت ہوسکتی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ زندگی بچانی ہے یہ بھی ہمیں دیکھنا ہے، جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ ہفتے دو تین یا چار ہفتے کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت دی جاسکتی ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جیل میں نوازشریف کا علاج اچھا ہو رہا ہے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ تو پھر کیا جیل میں علاج اچھا ہے اور باہر ٹھیک نہیں، یہ کہنا چاہتے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ وہ کہہ رہے ہیں پورے ملک میں علاج موجود نہیں اس لیے بیرون ملک جانا چاہ رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں جیل میں علاج اچھا ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس میں کہا کہ پھر تو باقی لوگوں کو بھی جیل میں ہی علاج کرانا چاہیے۔

بعدازاں عدالت نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کا فیصلہ محفوظ کیا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا۔

نواز شریف کی جانب سے جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی سزا کو چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ احتساب عدالت کے فیصلے میں غلطیوں کے ساتھ قانونی خامیاں ہیں، ساتھ ہی انہوں نے اپنی سزا کو معطل کرنے کی درخواست بھی دائر کی تھی۔

بعدازاں 27 مارچ کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کی سزا کو 6 ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی، تاہم بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔

العزیزیہ ریفرنس

یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں شک کی بنیاد پر بری کردیا تھا جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔ مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ جیل اور پھر ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں