ماضی قریب میں کچھ فنکار ایسے بھی رہے ہیں جنہوں نے بطور چائلڈ اسٹار سہیل رعنا کے ٹی وی شو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا، پھر موسیقی سے شغف اور سریلی آواز کے بل بوتے پر راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے۔ افشاں احمد، فاطمہ جعفری اور لبنیٰ ندیم جیسے فنکاروں کی اسی فہرست کا ہی ایک جانا پہچانا نام صدف منیر کا بھی ہے۔

کمبائن پروڈکشن کے بینر تلے ان کے اولین استاد غضنفر علی نے انہیں خالد انعم کے ساتھ برسوں پہلے پاکستان کی پہلی مارننگ ٹرانسمیشن میں ٹی وی کی ناصرف پہلی سنگنگ وی جے بنا دیا بلکہ اس طرح وہ پاکستان کی پہلی پرائیویٹ پروڈکشن کا مرکزی کردار بھی قرار پائیں۔

2011ء میں انہیں پی ٹی وی ایوارڈز میں بہترین فنکارہ کے طور پر نامزد کیا گیا۔ ’لہو ترنگ‘ اور ’روپ سروپ’ جیسے ٹی وی شوز کی سیریز میں انہوں نے سجاد علی، شہکی اور عالمگیر وغیرہ کے ساتھ موضوعاتی میوزک ویڈیوز کی سیریز میں ناصرف یادگار گیت گائے بلکہ بغیر ڈائیلاگ کی مشکل ترین اداکاری بھی کی، اسی سلسلے کی ایک کڑی سندھ کی لوک داستان ’لیلا چنیسر’ میں صدف نے ارشد محمود کے ساتھ جو شو کیا، اسے روس میں ہونے والے بین الاقوامی میلے میں پہلا انعام ملا۔

16 اگست کو کراچی میں پیدا ہونے والی خوبرو صدف منیر اپنی تین بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں
16 اگست کو کراچی میں پیدا ہونے والی خوبرو صدف منیر اپنی تین بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں

2011ء میں انہیں پی ٹی وی ایوارڈز میں بہترین فنکارہ کے طور پر نامزد کیا گیا۔
2011ء میں انہیں پی ٹی وی ایوارڈز میں بہترین فنکارہ کے طور پر نامزد کیا گیا۔

اسٹرنگز میوزک بینڈ تشکیل پا رہا تھا تب فیصل کپاڈیہ نے اپنے اسکول کے دنوں کی اس دوست کو گروپ کا تیسرا جز بننے کی پیش کش کی مگر صدف نہیں چاہتی تھی کہ اس کی تعلیمی سرگرمی متاثر ہو چنانچہ انہوں نے معذرت کرلی۔

مزید پڑھیے: پاکستانی فلم انڈسٹری کی فلاپ سوچ

صدف یہ ماننے کو تو تیار ہیں کہ ’پیپسی بیٹل آف دی بینڈز‘، ’نیس کیفے بیسمنٹ‘ اور ’کوک اسٹوڈیو‘ جیسے کارپوریٹ پلیٹ فارمز نے اب تک زیادہ تر ری مکس موسیقی کو فروغ دیا ہے، جس کے باعث زیادہ اوریجنل کام سامنے نہیں آسکا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان پلیٹ فارمز کے ذریعے مومنہ مستحسن اور ہادیہ ہاشمی جیسی آوازیں بھی سامنے آ رہی ہیں لہٰذا اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن بھی غنیمت ٹھہری۔

جب پوچھا گیا کہ مذکورہ بالا برانڈڈ شوز کی ٹیموں نے آپ کی آواز سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا، تو معنی خیز قہقہے کے ساتھ جواب دیا کہ، ’اب یہ سوال تو شاہی حسن اور فیصل کپاڈیہ و دیگر سے کریں۔‘

’چھا گئے ہیں بادلوں کے سائے‘ جیسے گیتوں سے شہرت پانے والی صدف منیر نے کم ہی گایا مگر خوب گایا۔ انہوں نے کم سنی میں ہی بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا لیکن اپنے گیتوں کی چھاپ کو مداحوں کی سماعتوں پر ثبت کرکے اچانک پردے سے غائب ہو گئیں۔

گھریلو مصروفیات، موسیقی کے بدلتے رُجحانات اور کچھ کھٹی میٹھی پیشہ ورانہ رقابتوں کے باعث، آنکھوں سے اوجھل سہی مگر شائقینِ موسیقی کی یادوں میں مہکتی صدف منیر کے بارے میں اچھی خبر یہ ہے کہ وہ ایک نئے جوش سے عنقریب ری لانچ ہونے جا رہی ہیں، وہ جدید آرکسٹرا پر مرزا غالب کا کلام ریکارڈ کروا چکی ہیں، جبکہ ارشد محمود نے ان کے لیے موسیقی ترتیب دی ہے۔

16 اگست کو کراچی میں پیدا ہونے والی خوبرو اور بزلہ سنج صدف منیر اپنی تین بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ ان کی والدہ کا تعلق آگرہ جبکہ والد کا لاہور سے ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی، پھر گورنمنٹ کامرس کالج سے بی کام کیا۔ صدف کے شوق و دلچسپی کو دیکھتے ہوئے والد نے گھر پر ایک میوزک ٹیچر کا بندوبست کیا اور کچھ عرصہ گھنشیام اکیڈمی سے رقص سیکھا۔

تیسری چوتھی جماعت سے ہی ان کے اندر فن کا سمندر موجزن دکھائی دینے لگا تھا۔ گھر والوں کے ساتھ سنیما گھر میں کوئی فلم دیکھ کر اپنے گھر لوٹتیں تو اکثر پاؤں میں اپنی پسندیدہ پازیب پہن کر محو رقص ہوجاتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ 'گھر کی شادیوں میں موسیقی کی تھاپ پر وہ خوب رقص کیا کرتی تھیں، بڑی بہنوں کی حوصلہ افزائی سے سہیل رعنا کے شو ’سارے دوست ہمارے‘ تک رسائی ہوئی اور آڈیشن کے روز گلا خراب ہونے کے باوجود کامیاب ہوگئیں اور پھر ملک کے اکلوتے ٹی وی چینل نے انہیں لمحوں میں مشہور کردیا'۔

کراچی میں ایک نشست کے دوران صدف منیر نے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم بچے، سہیل رعنا کے شو کی ریکارڈنگ سے فراغت کے بعد اکثر پی ٹی وی کی راہداریوں میں پکڑم پکڑائی کھیلا کرتے تھے۔ پروڈیوسر کاظم پاشا کی شفیق اور جوہر شناس نظروں نے ان میں چھپے فنکار کو پہچان لیا تھا، چنانچہ انہوں نے صدف کی والدہ سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں ان کی بیٹی ایک ڈرامے میں اداکاری کریں۔

والدہ نے اجازت دے دی اور یوں ’پناہ‘ نامی ڈرامے میں انہیں ایک افغان بچی کا کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا مگر یہ ان کے لیے اداکاری کا پہلا اور آخری موقع ثابت ہوا کیونکہ اس سے اول تو ان کی تعلیم متاثر ہونے کا خطرہ تھا پھر ان کا پہلا جنون یعنی موسیقی سے دُوری بڑھ جاتی۔

صدف منیر پاکستان کی پہلی مارننگ ٹرانسمیشن میں ٹی وی کی پہلی سنگنگ وی جے قرار پائیں
صدف منیر پاکستان کی پہلی مارننگ ٹرانسمیشن میں ٹی وی کی پہلی سنگنگ وی جے قرار پائیں

تاہم انہی دنوں میں پی ٹی وی کے سابق جنرل منیجر عبد الکریم بلوچ نے انہیں بلایا اور آڈیشن لیا، جس کے فوراً بعد ہی انہوں نے پروڈیوسر سلطانہ صدیقی صاحبہ کو بلا کر کہا کہ ’یہ لو، تمہارے نئے میوزک شو رنگ برنگ کے لیے ایک خوبصورت آواز کا تحفہ‘، اس وقت صدف کی عمر محض 12 سال تھی اور ان سے کافی سینئر لڑکیاں مثلاً، ٹینا ثانی، بینجمن سسٹرز، افشاں احمد، فاطمہ جعفری اور لبنیٰ ندیم وغیرہ اس شو کا حصہ تھیں۔

مزید پڑھیے: عامرذکی — وہ جو تھا، وہ ہی رہے گا

اس شو کا فارمیٹ بہت منفرد تھا۔ اس میں ایک بڑا سا بھالو ہوتا تھا، پپٹ تھے اور خوبصورت نغمے ہوا کرتے تھے، یوں سمجھ لیجیے کہ وہیں سے صدف کا پی ٹی وی کے مائیک اور موسیقاروں اور ریکارڈنگ اسٹوڈیوز کے ساتھ رشتہ جڑا۔

صدف منیر بتاتی ہیں کہ ’اس پروگرام کے بعد ان کا بطور گائک کیرئیر شروع ہوا تھا۔ یہ پروگرام 8 مہینے تک جاری رہا، اس کے موسیقار ارشد محمود نے مجھے بہت کچھ سکھایا، وہ ای ایم آئی ریکارڈنگ کمپنی کا تجربہ رکھتے تھے انہوں نے ہی مجھے پہلی مرتبہ نثار بزمی جیسے لیجنڈ موسیقار سے متعارف کروایا۔ میں ایک سال تک ان سے تربیت حاصل کرتی رہی۔ کچھ عرصے بعد مجھے سلطانہ صدیقی نے بلوایا اور کہا اب تم بڑی ہوگئی ہو، پھر انہوں نے میرا پہلا پرائم ٹائم کا نغمہ ’تیرے میرے سپنوں سے رنگ چرا کر‘ ریکارڈ کیا جو خالد انعم کے ساتھ ڈوئیٹ تھا۔ اس نغمے کو اس وقت کے سب سے بڑے کمپوزر نیاز احمد مرحوم نے ترتیب دیا تھا۔ میرے ساتھ خالد انعم کا بھی پرائم ٹائم کے لیے پہلا گیت تھا۔‘

یہ پی ٹی وی کا پہلا آؤٹ سورس گانا تھا جو شاداب اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’یہ میری خوش قسمتی ہے کہ یہ نیاز صاحب کے مشہور ٹی وی شو 'دھنک' کا پائلٹ گیت تھا۔ اس شو میں مجھ جیسی نو آموز کی اناؤنسمنٹ عالمگیر صاحب اور ٹینا ثانی نے کی، اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ سامعین میں استاد رئیس خان اور بلقیس خانم جیسے اساتذہ بیٹھے تھے۔ جب میں اپنا پہلا گیت گا کر اتری تو خان صاحب مہدی حسن خان اسی اسٹیج پر گانے کے لیے جلوہ افروز ہوئے۔‘

صدف کے بقول یہ سب کچھ اب ان کی یادوں کا انمول خزانہ ہے۔ اس پہلے شو کا معاوضہ انہیں 180 روپے ملا۔ رنگ برنگ کے ہر شو پر انہیں 125 روپے معاوضہ ملتا تھا، جسے وہ بینک میں جمع کر دیتی تھیں۔ وہ پی ٹی وی میں گزرے اپنے یہ لمحات کبھی نہیں بھول پاتیں، اگرچہ بہت کوشش کے باوجود صدف کو فلم کا نام تو یاد نہیں آیا لیکن انہیں اتنا ضرور یاد ہے کہ صرف 12 سال کی عمر میں بزمی صاحب نے انہیں حمیرا چنا کے ساتھ فلم میں پلے بیک گائیکی کا موقع دیا تھا۔

صدف منیر حمیرا چنا کے ہمراہ
صدف منیر حمیرا چنا کے ہمراہ

انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ’میں اسکول کے باہر سلیبریٹی تھی مگر اسکول میں داخل ہوتے ہی ایک عام سی طالبہ بن جاتی تھی۔‘ وہ اپنے اساتذہ کو بھی اپنی کامیابیوں کا کریڈٹ دیتی ہیں۔

وہ ساڑھے 4 سال تک گیت نغمے گاتی رہیں اور پھر ٹی وی کی دنیا کو خیرباد کہہ دیا لیکن انہیں حیرت ہوتی ہے کہ آج بھی لوگوں کو وہ یاد ہیں۔

موسیقی سے اپنے لگاؤ کے باعث ہی انہوں نے آج تک ریاض کرنا نہیں چھوڑا، وہ آج بھی ناصرف برِصغیر بلکہ مغربی موسیقی کی دنیا سے خود واقف رکھتی ہیں۔

صدف کے لیے ہوا کی سرسراہٹ بھی موسیقی ہے۔ ہارمونیم، کی بورڈ اور ستار آج بھی ان کے بہترین ساتھی ہیں۔ شادی بیاہ کے فنکشن اور ورائٹی شوز تو انہیں کرنا ہی نہیں تھے، لیکن اپنی اسٹارڈم کے دنوں میں انہوں نے دیگر ہم عصروں کی طرح بے شمار آفرز کے باوجود ملک کے اندر اور باہر پرائیویٹ کنسرٹس کے ذریعے پیسہ کمانے کو بھی ترجیح نہیں دی، جس کا اب انہیں کبھی کبھی افسوس بھی ہوتا ہے۔ صدف کو یہ بھی احساس ہے کہ اگر انہوں نے ٹی وی کے لیے گائے ہوئے اپنے گیتوں کو یکجا کرکے ایک البم بنا دیا ہوتا تو وہ فی زمانہ کمرشل کامیابیاں سمیٹنے کی دوڑ میں بھی شریک ہوتیں۔

صدف کو یاد ہے کہ کراچی آرٹس کونسل کا اسٹیج 10 سے 12 سال بند رہنے کے بعد بحال ہوا تو پہلا شو ان کا اور علی حیدر کا تھا۔

صدف کو اپنے جن فیصلوں پر افسوس ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سہیل رعنا، ارشد محمود اور نثار بزمی جیسے اساتذہ سے فیضیاب ہونے کے باوجود انہوں نے موسیقاری اور پروڈکشن پر دھیان نہیں دیا۔ انہیں پلے بیک گائک کے طور پر تربیت فراہم کی گئی تھی پھر بھی انہوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس حوالے سے وہ فاخر علی، حیدر ندیم جعفری، فخرِ عالم اور حدیقہ وغیرہ کو 100 میں سے 100 نمبر دیتی ہیں جنہوں نے اپنے گانے خود لکھے، خود ان کی موسیقی ترتیب دی اور خود پروڈیوس کیے، صدف کے خیال سے نئے زمانے میں یہی کامیاب بزنس اور مارکیٹنگ کی ضمانت ہے۔

90ء کی دہائی میں پوپ میوزک ہماری دہلیز پر دستک دے رہی تھی، میوزک چینل چارٹس کے پلیٹ فارم کو وہ اگرچہ بڑی حد تک غیر معیاری سمجھتی ہیں مگر اس کے ذریعے متعارف ہونے والے نئے رجحانات اور ٹیلنٹ کی ترویج کو وہ تسلیم کرتی ہیں۔

دورانِ گفتگو صدف منیر نے ایک بار پھر اپنی دلنشین اور معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ 'اگر میں اپنے کچھ اصول توڑ دیتی تو شاید میری البم بھی آجاتی اور مجھے کارپوریٹ سطح پر اسپانسرشپ بھی مل جاتی لیکن شاید میں ذہنی طور پر ایسی کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے خود کو تیار نہ کرسکی۔'

صدف سمجھتی ہیں کہ 'ہمارے ہاں موسیقی کی صنعت کنفیوژن شکار ہے، جس کا انہیں کافی افسوس بھی ہے۔' ان کے مطابق ’چونکہ میوزک چینلز نہیں ہیں اس لیے فنکار لاکھوں روپے جیب سے خرچ کرکے ایک ویڈیو گیت لانچ کرنے پر مجبور ہیں اور اس وجہ سے انہیں ہونے والا مالی خسارہ ان کی کمر توڑ دیتا ہے۔ وہ انٹرنیٹ پر ریلیز ہونے والے میوزک کو نئے سنگرز کی پروموشن کا ذریعہ مانتی ہیں لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ مستقبل قریب میں ہمارا فنکار بھی انٹرنیٹ کی کمائی سے جسٹن بیبر جتنی دولت اکھٹی کرسکے گا‘۔

صدف نے کہا کہ 'بدقسمتی سے ہمارے ملک میں لوگ آپ کو لائیو سننے کے لیے پیسہ خرچ کرنا نہیں چاہتے، وہ سنیما جا کر 1500 روپے فی کس خرچ کرکے انڈین فلم دیکھ آئیں گے مگر 800 روپے کا ٹکٹ خرید کر میوزک کنسرٹ میں شرکت نہیں کریں گے، بلکہ اس کے لیے فری پاس کے حصول کی ’جگاڑ‘ میں لگے رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں