‘جیوری پر تحفظات کے باوجود ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر عمل کریں گے‘

اپ ڈیٹ 26 جون 2019
بھارتی وزیر خزانہ اور دیگر وزرا اعلانیہ پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں—فوٹو: فیس بک
بھارتی وزیر خزانہ اور دیگر وزرا اعلانیہ پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں—فوٹو: فیس بک

امریکا میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف اب تک اٹھائے گئے اقدامات ’سیاسی خواہش کی عکاسی‘ ہے۔

ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کو اس جیوری کی شفافیت پر تحفظات ہیں جو دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف پاکستانی اقدامات کا جائزہ لے گی تاہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے نکلنے کے لیے حکومت ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے کوشاں ہے۔

مزیدپڑھیں: دہشتگردی کی مالی معاونت روکنے کیلئے پاکستانی اقدامات پر ایف اے ٹی ایف کے سخت سوالات

ڈاکٹر اسد مجید خان نے وضاحت دی کہ ایف اے ٹی ایف کے ذیلی ادارے ایشیا پیسفیک گروپ (اے جی پی) میں بھارت شامل ہے تو ایسے میں جیوری کے معیار پر سوال اٹھتا ہے جو ہماری کارکردگی کا جائزہ لے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم جیوری میں دھاندلی نہیں ہونے دیں گے، بھارتی وزیر خزانہ اور دیگر وزرا اعلانیہ پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں‘۔

علاوہ ازیں امریکا میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے عالمی براردی کو یقین دلایا کہ جیوری کی شفافیت پر تحفظات کے باوجود پاکستان ایف اے ٹی ایف کے شرائط کے مطابق ایکشن پلان پر بھرپور طریقے سے کام جاری رکھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم انتہائی سنجیدگی سے مسئلہ کے حل پر کام کررہے ہیں اور اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

مزیدپڑھیں: ایف اے ٹی ایف کے تحفظات دور کرنے کیلئے ایکشن پلان تیار

انہوں نے کہا کہ مختصر وقت میں مشکل شرائط کو پورا کرنا ہے لیکن جو اقدامات ہم اٹھا رہے ہیں وہ ایک حصہ ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے کئی اہداف حاصل کر لیے ہیں۔

ڈاکٹر اسد مجید خان نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ گزشتہ چند مہینوں میں تقریباً 700 اداروں کو بند کیا جن میں کچھ ایسے بھی تھے جنہیں بعض کالعدم تنظیمیں چلا رہی تھی۔

پاکستانی سفیر نے واضح کیا کہ ہم نے حال ہی میں 11 نئے اداروں کو کالعدم قرار دیا، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مقدمات کی شرح تقریباً 95 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس ضمن میں گرفتاریوں کی شرح 175 فیصد رہی اور 82 فیصد پر جرم ثابت ہوچکے ہیں۔

مزیدپڑھیں: افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں، آرمی چیف

انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے قانونی فریم ورک اور انفرا اسٹرکچر کو اہمیت دی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فورم پر عالمی برادری کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں متفقہ طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے کہ امن کے بغیر حکومت ترقیاتی ایجنڈے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔

تبصرے (0) بند ہیں