’انصاف کی بنیاد سچ پر ہوتی ہے، دو 4 گواہوں کو سزا ہوگی تو کچھ بہتر ہوگا’

اپ ڈیٹ 26 جون 2019
اللہ کے لیے سچی گواہی دیں، چاہے ماں، بہن، بھائی یا بیٹے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو—فائل فوٹو: سپریم کورٹ
اللہ کے لیے سچی گواہی دیں، چاہے ماں، بہن، بھائی یا بیٹے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو—فائل فوٹو: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے 8 افراد کے قتل میں ملوث ملزمان میں سے 3 کی سزائے موت کو ختم کردیا جبکہ 2 ملزمان کی بریت کے خلاف درخواستیں خارج کردیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے 8 افراد کے قتل کے ملزمان کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے ایف آئی آر میں 30 ملزمان کو نامز کر دیا، کیا یہ الزام آپ 35 یا 40 افراد پر لگا دیتے تو ہم مان لیتے، اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ واقع عدالت کے باہر ہوا ہے، جس میں 8 جانیں چلی گئیں اور 5 زخمی بھی ہوئے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: دہشتگردی کے مجرم کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ واقعی بہت افسوس ناک واقعہ ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ اپ جتنے لوگوں پر الزام لگا دیں ہم انہیں پهانسی پر چڑها دیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ جب 8 لاشیں پڑی ہوں تو اللہ یاد آنا چاہیے کچھ تو سچ بولیں، اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ 8 افراد کو قتل کرنا، 2 یا 4 لوگوں کا کام نہیں ہو سکتا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک بات طے ہے کہ ان گواہوں کا سچ سے کوئی تعلق نہیں، یہ گواہ جو چاہتے ہیں بیان دے دیتے ہیں۔

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اللہ کے لیے سچی گواہی دیں، چاہے ماں، بہن، بھائی یا بیٹے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، انصاف کی بنیاد سچ پر ہوتی ہے، یہاں تو سچ کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2، 4 گواہوں کو سزا ہوگی تو کچھ بہتر ہوگا، کچھ گواہ کیس بھگت بھی رہے ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس کی جانب سے کرمنل کیسز (مجرمانہ مقدمات) پر ریمارکس بھی دیکھنے میں آئے، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اسلام آباد کی کرمنل اپیلیں ختم ہوچکیں، اب ہم یہاں لاہور کی اپیلیں سن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب اسلام آباد کی کوئی بھی مجرمانہ اپیل باقی نہیں رہی، جلد ہی تمام کرمنل اپیلیں ختم ہوجائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: 52 مرتبہ سزائے موت پانے والا شخص بری

بعد ازاں عدالت نے 8 افراد کے قتل میں ملوث ملزمان میں سے 3 ملزمان مہدی خان، میاں خان اور لیاقت علی کو بری کردیا جبکہ 2 ملزمان لال خان اور عرفان کی بریت کے خلاف درخواست خارج کردی۔

واضح رہے کہ سال 2005 میں کهاریاں ڈسٹرکٹ کورٹ کے باہر 8 افراد کو قتل جبکہ 5 افراد کو زخمی کر دیا گیا تها۔

2007 میں ٹرائل کورٹ نے 7 ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی، تاہم 2011 میں ہائی کورٹ نے 2 ملزمان کو بری کردیا تھا جبکہ 3 ملزمان کی سزائے موت کو برقرار رکها تھا، اس کے علاوہ 2 ملزمان کا جیل میں انتقال ہوچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں