یکم جولائی تک حتمی بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیے جانے کا امکان

اپ ڈیٹ 28 جون 2019
بجٹ اور فنانس بل کا حتمی اور منظور شدہ ورژن پیرتک آئی ایم ایم کو منتقل کیے جانے کا امکان ہے—فوٹو: اے پی پی
بجٹ اور فنانس بل کا حتمی اور منظور شدہ ورژن پیرتک آئی ایم ایم کو منتقل کیے جانے کا امکان ہے—فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: حکومت آج (جمعہ کو) قومی اسمبلی سے فنانس بل 20-2019 کی حتمی منظوری کی توقع کر رہی ہے جس کے بعد اس کی اگلی منزل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا بورڈ اجلاس ہوگا، جو 3 جولائی کو شیڈول ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس تمام معاملے سے آگاہ ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ اسمبلی سے حتمی بجٹ کے اقدامات کی منظوری کے ساتھ تمام پیشگی اقدامات پر تعمیلی رپورٹ، پاکستان کی 6 ارب ڈالر کی درخواست پر آئی ایم ایف بورڈ کے فیصلے میں اہم عنصر ثابت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ اور فنانس بل کا حتمی اور منظور شدہ ورژن پیر تک آئی ایم ایم کو منتقل کیے جانے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: مالی سال 20-2019 کیلئے 70 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش

دوسری جانب بورڈ اجلاس کی حساسیت کے تناظر میں وزرات خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’تمام پیشگی ایکشنز کی تکمیل نے 3 جولائی کے بورڈ اجلاس کے لیے راستہ بنایا ہے، جبکہ پارلیمنٹ سے منظور بجٹ کو شیئر کرنا ان پیشگی ایکشن میں سے ایک تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اجلاس کے سامنے پیش کرنے کے لیے بجٹ کی منظوری پاکستان کے لیے حتمی چیز تھی، اس کے علاوہ ’حالیہ ایکسچینج ریٹ، اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ، بجلی اور گیس کی قیمتیں اور بجٹ منظوری اہم پیشگی اقدامات تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں کیا دیکھنا چاہیے؟

حکام کا کہنا تھا کہ 12 مئی کو ہونے والے اسٹاف کی سطح پر معاہدے کے تناظر میں اقتصادی اور مالی پالیسی کی یاد داشت (ایم ای ایف پی) پہلے ہی آئی ایم ایف کو منتقل کی جاچکی ہے، پاکستان 39 ماہ تک پروگرام کی مدت میں مصروف عمل رہے گا جسے اسٹیٹ بینک ’مارکیٹ کا متعین کردہ ایکسچینج ریٹ‘ کہہ رہا ہے۔

تاہم ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی موقع پر مرکزی بینک کو بیرونی عوامل کی طرف سے مصنوعی طریقے سے ایکسچینج ریٹ میں چھیڑچھاڑ کی کوشش کی قابل عمل ثبوت نظر آتے ہیں تو وہ اس میں مداخلت کے لیے آزاد ہوگا۔

اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک پاکستان اپنے پالیسی ریٹ اور افراط زر کی شرح کے درمیان موجودہ فرق کو برقرار رکھے گا، جبکہ کسی بھی وقت کیسے بھی حالات میں پالیسی ریٹ اور افراط زر کے درمیان فرق کو 1.5 فیصد سے نیچے گرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی حالات میں پالیسی ریٹ مہنگائی سے 1.5 فیصد زیادہ پر رہے گا۔

واضح رہے کہ اس وقت بنیادی افراط زرد 7.2 فیصد پر موجود ہے جبکہ صارفین کے پرائس انڈیکس کے تحت مہنگائی کی عام شرح 9.1 فیصد اور پالیسی ریٹ 12.25 فیصد پر ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مختلف ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ عام طور پر پالیسی ریٹ کا فیصلہ کرتے وقت موجودہ افراط زر کی شرح کے بجائے متوقع افراط زر کو دیکھا جاتا ہے، اسی تناظر میں بجٹ دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے متوقع مہنگائی کی شرح زیادہ سے زیادہ 13 فیصد ہوسکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں