ویانا اجلاس جوہری معاہدہ بچانے کا آخری موقع ہے، ایران

اپ ڈیٹ 28 جون 2019
ایران، جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر جڑے رہنا برداشت نہیں کرے گا، نائب وزیر خارجہ — فوٹو: رائٹرز
ایران، جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر جڑے رہنا برداشت نہیں کرے گا، نائب وزیر خارجہ — فوٹو: رائٹرز

ایران کا کہنا ہے کہ ویانا میں فریقین کے درمیان ہونے والا اجلاس اس کے ساتھ عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے کو بچانے کا ’آخری موقع‘ ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق تہران نے خبردار کیا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کا ’مصنوعی‘ حل قبول نہیں کریں گا۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اپنی دی گئی مدت سے چند دن کے فاصلے پر ہے اور وہ اس معاہدے سے دستبردار بھی ہوسکتا ہے۔

ایران سمیت جوہری معاہدے کے دیگر فریق معاہدے کو برقرار رکھنے کے مقصد کے تحت اجلاس میں شریک ہیں، لیکن یورپی طاقتوں کے پاس ایرانی معیشت کو امریکی پابندیوں سے محفوظ کرنے کی محدود صلاحتیں ہیں۔

مزید پڑھیں: ایران کا 27 جون سے یورینیم افزودگی کی طے شدہ حد سے تجاوز کرنے کا اعلان

تاحال یہ واضح نہیں کہ وہ تہران کے مطالبے پر کس طریقے سے اسے اقتصادی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

ایران کی نیم سرکاری خبر ایجنسی 'فارس نیوز' کی جانب سے جاری بیان میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے کہا کہ ’ میرا خیال ہے کہ یہ ملاقات دیگر فریقین کے لیے آخری موقع ہے کہ وہ جمع ہوں اور دیکھیں کہ وہ کس طرح ایران سے کیے گئے وعدوں پر پورا اتر سکتے ہیں‘۔

عباس موسوی نے کہا کہ مختلف بیانات میں ایران کے موقف کی حمایت کے باوجود معاہدے کے دیگر فریقین برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کوئی بھی اقدام اٹھانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

خبر ایجنسی کی جانب سے ویانا میں موجود ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس اراغچی کا بیان بھی جاری کیا گیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایران کا ’صبر‘ ختم ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران، جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر جڑے رہنا برداشت نہیں کرے گا۔

نائب وزیر خارجہ نے ویانا میں سفارت کاروں کے اجلاس میں کوئی ٹھوس اقدام اٹھائے جانے کی امید کا اظہار کیا۔

یورپی قوتوں نے ایران کی معیشت کو کچھ امریکی پابندیوں سے بچانے کی کوشش کے تحت 'انسٹیکس' طریقہ کار ترتیب دیا تھا جو ابھی تک غیر فعال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’تمام فریق جوہری معاہدے پرعمل کریںِ، ایران تنہا جڑا نہیں رہ سکتا‘

تاہم اس حوالے سے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کی مدد سے کم حجم کی اشیا جیسا کہ ادویات کی تجارت ہوسکے گی، لیکن بڑے پیمانے پر ہونے والی تیل کی فروخت نہیں ہوسکے گی۔

عباس موسوی نے کہا کہ ’ہم دیکھیں گے کہ انسٹیکس کے ذریعے کتنی رقم کی ٹرانزیکشن کی جاسکتی ہے، اگر یہ مصنوعی طریقہ کار ہے تو ایران اسے کسی صورت قبول نہیں کرے گا‘۔

جرمن اخبار کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران اور جرمنی کے درمیان تجارت ختم ہوگئی ہے اور یورپ جوہری معاہدے کو بچانے میں ناکام ہورہا ہے۔

'ایران کا جوہری مسئلہ پُرامن طریقے سے حل ہونا چاہیے'

دوسری جانب چین کی سرکاری خبر ایجنسی 'زِن ہوا' کے مطابق اوساکا میں جاری 'جی-20' اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اتفاق کیا کہ ایران کا جوہری مسئلہ پُرامن طریقے سے حل ہونا چاہیے اور کشیدگی میں مزید اضافے سے گریز کرنا چاہیے۔

گزشتہ روز فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران پر کچھ پابندیاں معطل کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

یاد رہے کہ ایران کے اعلیٰ سطح کے جوہری عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ ایران 27 جون سے عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے میں یورینیم افزودگی کی طے شدہ حد سے تجاوز کر جائے گا۔

8 مئی کو ایرانی صدر حسن روحانی نے اعلان کیا تھا کہ تہران 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت افزودہ یورینیم اور بھاری پانی کے ذخائر سے متعلق پابندیوں سے دستبردار ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ جولائی 2015 میں ایران اور 6 عالمی قوتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد 2016 سے شروع ہوا تھا۔

اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو روکنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا اور توانائی کے حصول کے لیے جوہری مواد کے استعمال کو بین الاقوامی جانچ کے حوالے کردیا تھا۔

گزشتہ برس مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے سابق صدر کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں امریکی صدر نے ایران پر سنگین معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جن کے باعث ایرانی معیشت بدحالی کا شکار ہے۔

امریکا کی دستبرداری کے بعد معاہدے کے دیگر فریقین نے اسے برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن ان کی اکثر کمپنیاں امریکا کے دباؤ کی وجہ سے تہران کے ساتھ معاہدے منسوخ کرچکی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں