ججز کے خلاف ریفرنسز: ’وزیر قانون کا شوکاز نوٹس معطل کرنا خلاف قانون قرار‘

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2019
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنسز کی سماعت ہوگی—فوٹو سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنسز کی سماعت ہوگی—فوٹو سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 2 ریفرنسز کی سماعت کے موقع پر کل (منگل کو) یوم سیاہ منانے کا اعلان کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی بی سی نے وکلا برادری پر زور دیا ہے کہ وہ دونوں ریفرنسز کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی عمارت میں اپنی حاضری یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیں: ججز کے خلاف ریفرنس: دوسری سماعت 2 جولائی کو ہوگی

ایک بیان میں پاکستان بار کونسل کے صدر امان اللہ کنرانی نے تمام بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کے نمائندگان سے کہا ہے کہ جب 5 رکنی بینچ ریفرنسز کی سماعت کے لیے بیٹھے تو یوم سیاہ منایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سماعت کے دوران وکلا بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں اور سیاہ جھنڈے تھامیں۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان بار کونسل سپریم جوڈیشل کونسل کے حتمی فیصلے کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔

انہوں نے کہا کونسل نے سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، بلوچستان ہائی کورٹ میں چھٹیوں کے پیش نظر عدالتوں کی بندش کی کوئی کال نہیں دی۔

امان اللہ کنرانی نے وکلا پر زور دیا کہ وہ متحد رہیں اور اپنی صفوں میں کسی کو انتشار پھیلانے نہ دیں، ساتھ ہی کونسل نے کچھ وکلا اور مختلف محکموں کے سربراہان کی طرف سے فائدے مند نشستیں حاصل کرنے کی خبروں پر تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ عوالتوں میں تقرریاں مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہئیں کیونکہ اگر ججز اور وکلا تنظیموں کے عہدیداروں کے رشتے دار ان اعلیٰ عہدوں تقرر ہوں گے تو شفافیت کا عمل متاثر ہوسکتا ہے‘۔

واضح رہے کہ ان ریفرنسز میں حکومت نے الزام لگایا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کی جانب سے بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کا ذریعہ آمدن نہیں بتایا گیا لہٰذا سپریم جوڈیشل کونسل کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے کہ آیا یہ جائیدادیں منی لانڈرنگ کے ذریعہ خریدی گئیں۔

حکومت کی جانب سے یہ بھی الزام لگایا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ اور بچوں کی غیرملکی جائیداروں کو چھپا کر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 116 (ون) (بی) اور سیکشن 116 (2) کی خلاف ورزی کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اس ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ اگرچہ جسٹس عیسیٰ نے 2018 میں غیرملکی جائیدادیں ظاہر کیں لیکن ان کی مالیت واضح نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر جسٹس فائز عیسیٰ کا صدر مملکت کو خط

تاہم یہ خیال کیا جارہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کو یہ موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ برطانیہ میں جائیداد رکھنے کے الزامات پر اپنی پوزیشن واضح کریں لیکن متعلقہ قوانین کے تحت اتھارٹیز کے سامنے اسے ظاہر نہیں کریں گے۔

وزیر قانون کا شوکاز نوٹس معطل کرنے پر پی بی سی کی تنقید

دوسری جانب پاکستان بار کونسل کے وزیر قانون کو جاری شو کاز نوٹس کو اٹارنی جنرل کی جانب سے معطل کرنے پرسخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

ڈان اخبار کی ایک اور رپورٹ کے مطابق پی بی سی کے نائب چیئرمین سید امجد شاہ نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل وفاقی وزیر قانون کو جاری کردہ پی بی سی کا شوکاز نوٹس ختم نہیں کرسکتے۔

جنرل باڈی اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے دفاتر کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر قانون کو شوکاز نوٹس قانون کے مطابق جاری کیا گیا تھا کیونکہ ایک وکیل جو وزارت کا قلمدان رکھتا ہے اسے اپنا لائسنس واپس دینا چاہیے لیکن انہوں نے اپنی پریکٹس جاری رکھی۔

انہوں نے کہا کہ ’بار کونسل نے وفاقی وزیر کو شوکاز نوٹس بھیجا تھا لیکن اٹارنی جنرل نے اس کو معطل کردیا جو قوانین کے خلاف ہے‘ جبکہ اپنے دفاتر کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا ملک میں قانونی نظام کو تباہ کرسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں