وفاقی سیکریٹریز بااختیار، بے نامی اثاثوں کے خلاف کارروائی کیلئے زونز قائم

اپ ڈیٹ 02 جولائ 2019
فنانس بل 2019 میں شامل  پبلک فنانس مینیجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت وزارتیں اور ان کے سیکریٹریز  پبلک فنڈز کمرشل بینک میں نہیں رکھ سکتے — فائل فوٹو/ ڈان
فنانس بل 2019 میں شامل پبلک فنانس مینیجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت وزارتیں اور ان کے سیکریٹریز پبلک فنڈز کمرشل بینک میں نہیں رکھ سکتے — فائل فوٹو/ ڈان

اسلام آباد: حکومت نے وفاقی سیکریٹریز کو ان کے متعلقہ وزارتوں اور ان سے منسلک اداروں کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈز کے مکمل اختیارات فراہم کردیے۔

ان اختیارات کے تحت وفاقی سیکریٹریز کو مالی سال کے اختتام سے کم از کم 25 دن قبل خرچ نہ ہونے والے مجموعی فنڈز واپس کرنے ہوں گے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق فنانس بل 2019 میں شامل پبلک فنانس مینیجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت وزارتوں اور ان کے سیکریٹریز پبلک فنڈز کمرشل بینک میں نہیں رکھ سکتے۔

تمام فنڈز حکومت کے واحد حکومتی اکاؤنٹ میں رکھیں جائیں گے اور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسرز ( پی اے اوز) مالیاتی مشیران کے بغیر کسی بھی وقت فنڈز نکال سکتے ہیں۔

سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ نیا مالیاتی نظام، مالیاتی جاگیرداری کے خاتمے کا عملی آغاز ہوگا اور اس سے پبلک سیکٹر کے ترقیاتی منصوبوں اور اسکیموں میں عملدرآمد میں تاخیر میں کمی آئے گی۔

مزید پڑھیں: حکومت کا ایمنسٹی اسکیم میں 3 جولائی تک توسیع کا اعلان

آئندہ سال نئے قانون میں وفاقی بجٹ کی 3 سالہ کارکردگی پیش کرنے کی ضرورت ہوگی جس کے تحت وزرا، ڈویژنز اور متعلقہ محکمات کو 3 سال میں مکمل کیے گئے اہداف سے متعلق آگاہ کرنا ہوگا، اور اس کے ساتھ ہی حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی سے آگاہ کرنے کے لیے سہ ماہی رپورٹس بھی جع کرانی ہوگی۔

وفاقی سیکریٹری کو اہداف پر عملدرآمد کے لیے فنڈز استعمال کرنے کے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے اور زیادہ لاگت اور تاخیر کرنے پر تحقیقات یا آزادانہ آڈٹ کا حکم دیا جائے گا۔

عہدیدار نے بتایا کہ نئے ایکٹ کے تحت سیکریٹری کو مختص کیے گئے فنڈز کا اجرا اور استعمال اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو ( اے جی پی آر) کے ذریعے کیا جائے گا۔

ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی حکومت میں نئے مالیاتی نظام کے تحت وزارتوں میں تعینات مشیر خزانہ اور نائب مشیر خزانہ کو چیف فنانشل اور مینیجمنٹ اکاؤنٹنٹس سے تبدیل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس نظام پر عملدرآمد کے بعد صوبائی سیکریٹریز سے بھی ایسے ہی مطالبات سامنے آئیں گے اور وفاقی حکومت کو شاید صوبائی اکاؤنٹنٹ جنرلز تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

تاہم اس اقدام سے سیکریٹریز پر سیاسی اثر و رسوخ اور کمزور مالیاتی انتظامی صلاحیت کی وجہ سے مزید مالیاتی بدانتظامی پیدا ہوسکتی ہے۔

بے نامی اثاثوں کی تحقیقات کیلئے زون قائم

حکومت نے بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ 2017 کے تحت بے نامی جائیدادوں کے خلاف کارروائی کے لیے لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں 3 بڑے زونز اور 11 ذیلی زون قائم کیے ہیں۔

دو روز قبل مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اثاثے ظاہر نہ کرنے والے افراد کے خلاف لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں 3 زون قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

فیڈرل بیورو آف ریونیو ( ایف بی آر) کے نوٹی فکیشن کے تحت پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس ( پی اے ایس) کے ریٹائرڈ 22 گریڈ افسر کو چیئرپرسن تعینات کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا ایمنسٹی اسکیم کی ڈیڈلائن میں توسیع کا عندیہ

بے نامی کمیشن میں شامل 2 اراکین محمد تنویر اختر ان لینڈ ریونیو سروس (آئی آر ایس) کے 21 گریڈ کے ریٹائرڈ افسر اور خاقان مرتضیٰ پی ایس کے 21 گریڈ کے ریٹائرڈ افسر ہیں۔

اس کے ساتھ ہی 11 ذیلی زونز متعلقہ حکام کی معاونت کریں گے، اس مقصد کے تحت آئی آر ایس کے حسن ذوالفقار کو بے نامی مقدمات کی منظوری کے لیے اسلام آباد زون ون کا چیئرمین بناگیا ہے، فیض حسن ان کی معاونت کریں گے جبکہ حسن خالد بے نامی جائیدادیں ضبط کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔

اسی طرح آئی آر ایس کمشنر خالد خان کو لاہور زون 2 کا چیئرمین بنایا گیا جبکہ سلمان نوید اور عاصم رضا نائب کمشنر کے طور پر ان کی معاونت کریں گے۔

سید شکیل احمد کو زون 3 کراچی کا چیئرمین بنایا گیا ہے جبکہ سید بلال محمود جعفری اور سید مشکور علی ان کی معاونت کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں