’خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ گیس چوری ہوتی ہے‘

اپ ڈیٹ 07 جولائ 2019
ہم کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں سمجھایا جائے کہ گیس چوری نہیں کریں—تصویر بشکریہ فیس بک
ہم کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں سمجھایا جائے کہ گیس چوری نہیں کریں—تصویر بشکریہ فیس بک

لاہور: وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن ندیم بابر نے کہا ہے کہ گیس چوری کے حوالے سے خیبرپختونخوا پہلے نمبر پر ہے اور یہ سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کو ہونے والے تکنیکی اور کمرشل نقصانات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی گیس چوری کی روک تھام کے لیے خیبرپختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون کیوں نہیں کیا؟

تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ گیس چوری ہنگو اور کرک اسٹیشنز کی پائپ لائن سے خیبرپختونخوا میں ہوتی ہے لیکن چونکہ یہ علاقے گیس پیدا کرتے ہیں اس لیے یہاں کہ مقامی افراد اپنا حق سمجھ کر گیس چوری کرتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا گیس چوری کے خلاف جامع منصوبہ بنانے کا حکم

انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں سمجھایا جائے کہ گیس چوری نہیں کریں اور گیس کمپنی کی جانب سے قانونی طریقے سے فراہم کی جانے والی گیس کے نیٹ ورک کا حصہ بنیں۔

سوئی گیس کے ہیڈ کوارٹرز میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ان اضلاع کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے منصوبے شروع کریں گے تا کہ قانونی گیس کنکشنز فراہم کر کے مقامی افراد کی سماجی حالت بہتر بنائی جاسکے۔

بابر ندیم نے دعویٰ کیا کہ سوئی ناردرن کمپنی کے ٹیکنکل اور کمرشل نقصانات میں کمی آئی ہے خاص طور پر صنعتی صارفین کے لیے۔

اور ایسا صرف ساڑھے 4 ہزار صنعتی کنیکشنز کی باقاعدگی سے نگرانی کرنے کی وجہ سے ہوا ہے اور کمپنی کو ہونے والے نقصانات بھی کم ہو کر صرف ڈیڑھ فیصد رہ گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: گیس کی قیمتوں میں 191 فیصد تک اضافے کی منظوری

ان کا مزید کہنا تھا کہ سوئی ناردرن گیس کمپنی 65 لاکھ صارفین کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی کمپنی ہے اور اس کے نقصانات بھی رفتہ رفتہ کم ہوں گے۔

گیس چوری روکنے کے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ کمپنی پرانی پائپ لائن کو تبدیل کرنے اور لیکیج کو روکنے کے لیے بھی کام کررہی ہے۔

معاون خصوصی نے بتایا کہ گیس کمپنی نے موسمِ سرما کے سلسلے میں ایک منصوبہ ترتیب دیا ہے جس میں صارفین کو پرانے گیزر، گیس کے نقصان، بل کے حساب کتاب اور گیس کی قیمتوں کے بارے میں آگاہی دینے کی مہم چلائی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ مالی سال کے دوران گیس کی قلت میں 157 فیصد اضافے کا امکان

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 5 بین الاقوامی کمپنیوں نے کراچی اور بلوچستان میں مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے ٹرمینل نصب کرنے کی پیشکش کی ہے۔

انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ عالمی مالیاتی فنڈ کی ہدایات پر کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف نے قیمتوں میں اضافے کا مشورہ نہیں دیا تھا البتہ ایک کھرب 68 ارب ڈالر کے گیس کے گردشی قرضے کم کرنے کی ہدایت کی تھی۔


یہ خبر 6 جولائی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jul 06, 2019 06:45pm
اگر ان کو سمجھایا جائے کہ مناسب استعمال پر گیس کا بل بھی مناسب آتا ہے نہ کہ کے الیکٹرک کی طرح خواہ مخواہ چور قرار دے یا پھر کسی اور استعمال شدہ یونٹس پر تھوپ دے جاتے ہیں۔ تو یہ لوگ گیس کا بل ادا کرنا شروع کردینگے مثلاً میرے گھر میں ناشتہ، ایک وقت کھانا بنانے اور رات کو گرم کرنے ، سہ پہر کو چائے بنانے، صبح پراٹھے، 2 وقت روٹیاں پکانے اور ہفتے میں کوئی ایک آدھ زیادہ ڈش بنانے پر 500 روپے گیس کا بل آیا جس کا مطلب ہے 20 روپے روز اور 7 روپے فی وقت۔