لندن: برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ جیریمی ہنٹ نے کہا ہے کہ صحافیوں کا استحصال کرنے والے ممالک کو ’سفارتی قیمت‘ ادا کرنی چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میڈیا کی آزادی پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لبرل جمہوریتوں کو ’ہماری تعلیمات کی مشق‘ بھی ضرور کرنی چاہیے۔

برطانیہ کے اگلے لیڈر بننے کے لیے بورس جوہنسن سے لڑنے والے جیریمی ہنٹ نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل، چین اور ویتنام میں کارکنوں کی حراست اور میکسکو میں رپورٹرز کے قتل کو اٹھایا تھا۔

مزید پڑھیں: صحافتی اداروں کیلئے مشکل ملک

انہوں نے کہا کہ ’اگر ہم ساتھ کام کریں تو ہم استحصال پر نظر رکھ سکتے ہیں اور وہ جو صحافیوں کو نقصان پہنچاتے یا ان کو ان کے فرائض انجام دینے سے روکتے ہیں ان پر سفارتی قیمت کا نفاذ کرسکتے ہیں‘۔

کینیڈا کی شراکت کے ساتھ ہونے والی اس لندن کانفرنس میں 100 مختلف ممالک سے 60 وزرا اور 1500 کے قریب صحافی، سرگرم کارکنان اور طلبا کو ایک جگہ اکھٹا ہونے کا موقع ملا۔

کانفرنس کے میزبان آزادی صحافت کے تحفظ اور مخصوص کیسز پر ریاستوں کے درمیان تعاون کے عزم کا اظہار کرتے نظر آئے۔

جیریمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور کینیڈا ’ جہاں میڈیا کی آزادی پر حملہ ہوتے ہیں وہاں ایک ذہنیت رکھنے والے ممالک میں ہم آہنگی‘ کے لیے ایک گروپ بنانا چاہتے ہیں۔

اس موقع پر کینیڈین وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ کا کہنا تھا کہ ’جب آپ اکیلے نہ ہو تو بولنا آسان ہوتا ہے‘۔

دوران کانفرنس برطانیہ نے صحافیوں کو حفاظتی تربیت اور قانونی مشورے فراہم کرنے کے لیے عالمی فنڈ کے کک اسٹارٹ کے لیے 30 لاکھ پاؤنڈ (37 لاکھ 50 ہزار ڈالر) جبکہ آزاد میڈیا کی مدد کے لیے مزید ایک کروڑ 50 لاکھ کا وعدہ بھی کیا۔

تاہم جیریمی ہنٹ نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی جانب سے آزادی صحافت انڈیکس میں ان کے ملک کا 33واں نمبر ہونے کے بعد ان کے اپنے ملک کو ’مزید بہتری‘ کرنا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: یوم آزادی صحافت اور بے سہارا صحافی

انہوں نے کہا کہ ’ہم میں سے وہ لوگ جو کھلے معاشرے میں یقین رکھتے ہیں انہیں اس کی مشق کرنی چاہیے جس کی ہم تبلیغ دے رہے ہیں‘۔

اس موقع پر جب ان سے ’جعلی خبروں‘ کے لیے میڈیا پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حملوں سے متعلق پوچھا گیا تو جیریمی ہنٹ نے کہا کہ ’میں اس سے اتفاق نہیں کرتا‘۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو ہم کہہ رہے ہیں اس کا ان دیگر ممالک پر کیا اثر پڑے گا جہاں پریس کی آزادی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

تبصرے (0) بند ہیں