نمل اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو 24 سال کا ٹیکس ادا کرنے کا حکم

11 جولائ 2019
عدالت عظمیٰ نے دونوں جامعات کی نظرثانی درخواستیں خارج کردیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت عظمیٰ نے دونوں جامعات کی نظرثانی درخواستیں خارج کردیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو 1995 سے اب تک (یعنی 2019) تک ٹیکس ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے دونوں جامعات کی ٹیکس سے متعلق نظرثانی درخواستیں خارج کردیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے دونوں جامعات کی ٹیکس سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔

اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وکیل نے کہا کہ ہمیں 1995 سے 2001 تک کوئی ٹیکس نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا جبکہ 2001 میں نوٹیفکیشن میں 1995 سے ٹیکس دینے کا کہا گیا۔

مزید پڑھیں: پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں تقرریوں اور الحاق کے عمل میں بے قاعدگیوں کا انکشاف

وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نوٹیفکیشن نہیں دیا گیا تو کیا ٹیکس دینے کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے، ساتھ ہی جسٹس گلزار نے کہا کہ 2001 کے نوٹیفیکیشن کو1995کے نوٹیفیکشن پر ترجیح حاصل ہے، نئے نوٹیفیکشن میں تھوڑی سی تبدیلی کی گئی ہے اور کچھ نہیں کیا۔

سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ نمل یونیورسٹی کے وکیل نے گزشتہ روز التوا کی درخواست دی، جس میں وجہ یہ بتائی گئی کہ وکیل بیرون ملک ہیں، تاہم نظرثانی درخواست میں التوا نہیں ہوسکتا جبکہ یہ درخواستیں میرٹ پر بھی پوری نہیں اتر رہیں۔

سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں سرکاری وکیل نے کہا کہ سی ڈی اے نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2 روز تاخیر سے درخواست دائر کی، میں نے بہت سے فیصلوں کا حوالہ دیا ہے، ایک روز کی تاخیر سے دائر درخواست بھی قابل سماعت نہیں ہوسکتی۔

سماعت کے دوران بتایا گیا کہ ہائی کورٹ نے دونوں یونیورسٹی کو 1995 سے ٹیکس دینے کا حکم دیا تھا جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وکیل نے موقف اپنا کہ عدالت عالیہ نے انہیں ریلیف دے دیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے کی نوعیت مختلف ہے اس میں قانون واضح کرنا ہے، جہاں قانون واضح کرنا ہو وہاں زائد المیعاد کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔

ساتھ ہی جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ یہ ٹیکس کا معاملہ ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ باقیوں سے ٹیکس لیں اور آپ سے نہ لیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے پہلی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کروادی

اس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ 1991 کے نوٹیفکیشن کے مطابق تعلیمی اداروں کو ٹیکس سے استثنیٰ حاصل تھا، تاہم اس میں صرف سرکاری یا نیم سرکاری تعلیمی ادارے شامل تھے۔

انہوں نے بتایا کہ 1995کے جاری نوٹیفیکیشن میں ٹیکس عائد کر دیا گیا، نوٹیفیکیشن کے مطابق صرف فلاحی ادارے کو ٹیکس سے استثنی دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ہائی کورٹ نے دونوں جامعات کو 1995 سے ٹیکس دینے کا حکم دیا تھا، جس پر دونوں اداروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

تاہم آج ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے دونوں کی نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں اور ٹیکس کی ادائیگی کا حکم دے دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں