کرائسٹ چرچ حملے کے بعد خصوصی مہم، سیکڑوں افراد نے ہتھیار واپس کردیے

اپ ڈیٹ 13 جولائ 2019
نیوزی لینڈ کی حکومت نے نیم خودکار ہتھیار واپسی کی اسکیم متعارف کروائی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
نیوزی لینڈ کی حکومت نے نیم خودکار ہتھیار واپسی کی اسکیم متعارف کروائی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملے کے بعد ملک کو نیم خودکار ہتھیاروں سے پاک کرنے کے مقصد کے طور پر شروع کی گئی مہم میں درجنوں نیوزی لینڈرز نے اپنے آتشی اسلحوں کو واپس کردیا۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ملک گیر منعقد ہونے والی اس مہم کے آغاز میں کرائسٹ چرچ میں 250 سے زائد کلیکشن ہوئی، یہ وہی شہر ہے جہاں تقریباً 4 ماہ قبل نماز جمعہ کے دوران 51 مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد نیوزی لینڈ حکومت، اپوزیشن کی حمایت سے ملک کے بندوق قوانین (گن لاز) کو سخت کرنے کے لیے فوری طور پر قانون سازی کی طرف بڑھی تھی۔

اپریل میں نیوزی لینڈ حکومت کی جانب سے زیادہ تر نیم خودکار آتشی اسلحے، کچھ پمپ ایکشن شوٹ گنز اور کچھ بڑے میگزین پر پابندی کے بعد ایمنسٹی معاہدے کے تحت ہتھیار رکھنے والے دسمبر 2020 تک غیرقانونی بندوقیں واپس کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ نے 'نیم خودکار اسلحہ واپسی' کی اسکیم متعارف کروادی

پولیس وزیر اسٹارٹ نش کا کہنا تھا کہ اس سب کا مقصد ’آبادی سے بہت زیادہ خطرناک ہتھیاروں کا خاتمہ کرنا ہے‘۔

معاوضے کی ادائیگی

پولیس کی جانب سے ہتھیاروں کے ساتھ اسے دینے والوں کی نگرانی کی اور 169 آتشی اسلحہ مالکان نے 224 ہتھیاروں اور 217 پارٹس اور ایساسریز کو حوالے کردیا۔

جس کے بعد انہیں تلف کردیا گیا اور معاوضے کے طور پر 2 لاکھ 90 ہزار 300 ڈالر سے زائد دیے گئے۔

اس حوالے سے ریجنل پولیس کمانڈر مائیک جوہنسن کا کہنا تھا کہ کینٹربری ریجن میں 903 بندوق مالکان نے ایک ہزار 415 آتشی اسلحے کو رجسٹرڈ کروایا جنہیں حوالے کیا جائے گا۔

مائیک جوہنسن کا کہنا تھا کہ ’پولیس سمجھتی ہے کہ آتشی اسلحہ رکھنے والی کمیونٹی کے لیے قانون سازی ایک بڑی تبدیلی ہے اور ہم لوگوں کی طرف سے کافی مثبت ردعمل دیکھ رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کینٹربری کے آتشی اسلحہ مالکان کا اس عمل کے لیے رویہ شاندار ہے‘۔

دوسری جانب کینیڈا سے نیوزی لینڈ منتقل ہونے والے 25 سالہ رے بیرارڈ نے ایک رائفل حوالے کرتے ہوئے کہا کہ وہ کینیڈا کی فوج اور وہاں کی شوٹنگ ٹیم میں تھے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ جدید معاشرے میں جنگی طرز کے آتشی اسلحے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میری اہلیہ دوبارہ تعمیر ہونے والے ہسپتال میں ایک پروجیکٹ ڈائریکٹرز کے طور پر کام کر ہی ہیں اور جب حملے کے وقت ہم وہاں موجود تھے اور اگلے روز وہاں 35 جنازے دیکھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کرائسٹ چرچ مساجد کے حملہ آور کا الزامات ماننے سے انکار

لائسنس یافتہ آشتی اسلحہ مالکان کے پاس ہتھیاروں کو سرنڈر کرنے کے لیے 6 ماہ ہیں کیونکہ اب انہیں اس اسکیم کے تحت غیرقانونی تصور کیا جاتا ہے تاہم ایمنسٹی میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اس عرصے میں انہیں کسی مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

ایمنسٹی کے ختم ہونے کے بعد ممنوعہ آتشی اسلحے کی ملکیت پر 5 سال تک سزا ہوسکتی ہے۔

یاد رہے کہ 15 مارچ 2018 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد میں دہشتگردی کے نتیجے میں 51 نمازی شہیدہوئے تھے اور یہ حملہ کرنے والا آسٹریلوی نژاد ملزم برینٹن ٹیرنٹ کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا اور اس پر قتل اور دونوں مساجد پر حملوں میں فوجی طرز کی نیم خودکار رائفل سمیت 5 ہتھیاروں کے استعمال کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے، تاہم ملزم برینٹن ٹیرنٹ نے ان الزامات کی تردید کردی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں