میرا ہر سال کوئٹہ جانا ہوتا ہے۔ اس بار کوئٹہ میں جب میری ملاقات میرے ایک پرانے دوست طحٰہ سے ہوئی تو میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپنے جمنازیم لے چلے تاکہ میری ورزش کے معمول میں ناغہ نہ ہو۔ ایک ہزار مربع فٹ پر پھیلا یہ کوئی بڑا جم تو نہیں ہے لیکن اس میں تمام تر بنیادی ضروریات موجود ہیں۔ اس جم کا سب سے دلچسپ حصہ 76 سالہ فِٹ اور خوبصورت جسم کے حامل جم کے مالک بشارت احمد ہیں۔

ویٹ لفٹنگ چیمپئن اور اپنے دنوں میں قومی سطح پر رنر اپ آنے والے بشارت 8 بار بلوچستان چیمپیئن رہ چکے ہیں۔ اس کثیرالعمری میں بھی وہ 25 سالہ ایتھلیٹ کی طرح ورزش کرتے ہوئے نظر آئے تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ ورزش اور جم ہی انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ رکھے ہوئے ہیں۔

11 اگست 1943ء میں پیدا ہونے والے بشارت نے 40 برس سے زائد عرصے تک پاکستان ریلویز میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’میری شادی 1959ء میں ہوئی تھی اور اسی سال مجھے سرکاری نوکری ملی تھی۔ میری تنخواہ محض 66 روپے تھے لیکن ان دنوں میں یہ ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی اور میں بھی ایک ٹین ایجر ہی تھا۔'

وہ کہتے ہیں کہ، ’میرے پاس اس شہر کی چند بڑی ہی سنہری یادیں ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ شہر میرے ساتھ ساتھ بڑا ہوا۔ اس دور میں پورے شہر میں بمشکل 2 یا 3 خاندانوں کے پاس ہی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن آج کوڑے کرکٹ سے بھرپور نظر آنے والی وادیاں 50ء اور 60ء کی دہائی میں پکنک مقامات ہوا کرتے تھے۔‘

جب وہ حال کی طرف لوٹتے ہیں اور افسردہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ، ’کچھ دن پہلے میری 45 سالہ بیٹی دنیا سے رخصت ہوگئی۔ 20 برس قبل میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ ورزش اور جم ہی وہ 2 ایسے اسباب ہیں جو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ آپ اور آپ کے دوست جیسے لوگوں کی یہاں آمد اور ان سے گفتگو مجھے ہر دم چست رکھتی ہے۔ ورزش میرے ذہن کو ترو تازہ رکھنے کے ساتھ ذہن بٹانے میں بھی مدد کرتی ہے۔

بشارت احمد—تصویر بشکریہ لکھاری
بشارت احمد—تصویر بشکریہ لکھاری

بشارت کی توجہ فیملی سے ہٹانے کی غرض سے میں نے ان سے ان کی ویٹ لفٹنگ کے بارے میں پوچھا۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ، ’میں نے 60ء کی دہائی کے اوائل میں ویٹ لفٹنگ کا آغاز کیا تھا۔ 1967ء میں بلوچستان چیمپین بن گیا تھا اور اگلے مسلسل 8 برسوں تک یہ خطاب میرے پاس ہی رہا۔ اس دوران چند دیگر مقابلوں میں، میں رنر اپ بھی آتا رہا۔ 1966ء میں لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں قومی ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوا تھا جس میں بلوچستان کی ٹیم رنر اپ آئی تھی۔‘

جب اس کھیل کے انتخاب کے بارے میں پوچھا گیا تو بشارت نے بتایا کہ انہیں ویٹ لفٹنگ ایک سب سے آسان ترین کھیل محسوس ہوتا تھا۔ وہ یہ کہتے ہوئے ہنس دیتے ہیں کہ، ’ان دنوں بلوچستان میں اس کھیل کے بہت ہی کم حریف ہوا کرتے تھے۔‘

لاہور میں ہونے والے قومی چیمپئن شپ مقابلے کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ پہلا ایسا موقع تھا جب انہوں نے اور ان کی ٹیم نے کوئٹہ سے باہر قدم رکھا تھا‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ، ’ہمارے پاس ویٹ لفٹنگ کے کھلاڑیوں کو مطلوب سامان ہی دستیاب نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ جیسے ہماری ٹیم کا پہلا ممبر اسنیچ کیٹیگری میں ویٹ لفٹنگ کے لیے گیا تو اس کا انڈرویئر پھٹ گیا۔ ہم سب کے لیے وہ نہایت شرمندگی سے بھرپور لمحہ تھا۔‘

’لیکن یہ لاہور کی تنظیمی کمیٹی کا حُسنِ سلوک کہیے کہ جس نے ویٹ لفٹنگ کے لیے مطلوب ساز و سامان ہمیں فراہم کیا اور ان ساری باتوں کے بعد ہم اس مقابلے میں رنر اپ آئے۔‘ وہ اپنی اس یاد کو دہراتے ہوئے مسکرانے لگتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ، ’اب جب میں شہروں کے اندر، بالخصوص کھیلوں کے معاملے میں اس امتیاز کو دیکھتا ہوں، تو میں ہمیشہ اس واقعے کا ذکر کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ کس طرح ابتدائی دنوں میں کسی قسم کے نہ لسانی اور نہ مذہبی تفریق کے مسائل ہوا کرتے۔ ہر شخص دیگر افراد کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھتا اور ہر ایک کا احترام کرتا تھا۔‘

1969ء میں کوئٹہ میں بولان چیمپئن شپ کے مقابلے میں بشارت ویٹ لفٹنگ
1969ء میں کوئٹہ میں بولان چیمپئن شپ کے مقابلے میں بشارت ویٹ لفٹنگ

وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح اس وقت کے سیکریٹری برائے ویٹ لفٹنگ ایسوسی ایشن آف بلوچستان، ٹورنامنٹ کے انعقاد اور کامیاب کھلاڑیوں کو انعام دینے کے لیے حکومت سے سالانہ محض 2 ہزار روپے حاصل کیا کرتے تھے۔ جب پوچھا کہ مقابلے میں جیتنے پر انہیں کیا حاصل ہوتا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ’انہیں 16 روپے بطورِ انعام دیا جاتا تھا جبکہ رنر اپ کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ، ’بعض اوقات تو کامیاب کھلاڑی کو بھی کوئی انعام نہیں ملتا تھا لیکن ان دنوں ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد ہمارے حوصلے اس قدر بلند ہوتے تھے کہ انعام کی طرف توجہ ہی نہیں جاتی تھی۔‘

بشارت کو آج بھی 11 جون 1977ء کا وہ دن واضح طور پر یاد ہے جب وہ روڈ حادثے کا شکار ہوئے تھے۔ وہ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ، ’3 جولائی کو مجھے بلوچستان چیمپئن شپ میں حصہ لینا تھا، جو میری زندگی کا آخری ٹورنامنٹ ثابت ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ سابق وزیرِاعظم پاکستان ظفراللہ خان جمالی بھی اس ٹورنامنٹ میں بطور مہمان خصوصی شریک تھے، جو ان دنوں بلوچستان اسمبلی کے رکن تھے۔‘

بدقسمتی سے ٹورنامنٹ کے 3 ہفتے پہلے ہونے والے حادثے کے باعث بشارت اس میں حصہ لینے کے لیے پوری طرح سے فٹ نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’اس دن ذہنی طور پر بھی میرے حوصلے بلند نہیں تھے اور ٹورنامنٹ کے دوران میرے زخم سے خون رسنے لگا تھا۔ میں اس مقابلے میں خود کو رنر اپ بنانے میں ہی کامیاب ہوسکا تھا اور اس ٹورنامنٹ کے ساتھ میرا کھیل سے متعلق کیریئر بھی انجام کو پہنچا۔‘

جب ان سے پوچھا کہ ویٹ لفٹنگ چھوڑنے کے بعد کیا کیا، تو اس پر انہوں نے کندھے اچکائے اور کہا، ’کچھ خاص نہیں۔ پھر 1999ء میں ریلوے سے ریٹائرمنٹ کے چند ماہ قبل میں نے جِم کھولا۔ عالمی نمبر 5 اسکوائش کھلاڑی شاہد زمان بھی میرے جم میں ٹریننگ کے لیے آیا کرتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ عظیم فٹ بال کھلاڑی کرنل یونس چنگیزی بھی یہاں آیا کرتے تھے جو بعدازاں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن بھی بنے تھے۔ بھلے ہی یہ جم چھوٹا ہے لیکن اس نے متعدد چیپمئنز پیدا کیے ہیں جو مسٹر کوئٹہ، مسٹر بلوچستان اور مسٹر ہزارہ جیسے ٹائٹل اپنے نام کرچکے ہیں۔

’ان تمام برسوں کے دوران یہاں ویٹ لفٹنگ کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنی کہ تن سازی کو دی جاتی ہے۔ 1960ء کی دہائی میں چھوٹے چھوٹے مسلز والے دبلے پتلے آدمی بڑے بڑے باڈی بلڈنگ چیمئن شپ کے مقابلے جیتا کرتے تھے مگر اب تو آپ کا ایک ایک مسل غیر معمولی ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے تن سازی کرنے والے اسٹیرائڈ استعمال کرتے ہیں۔ ذرا ان کے بڑے بڑے مسل تو دیکھیں۔ ایسا فطری طور پر کرنا تو ممکن ہی نہیں ہے، میں نے کبھی یہ استعمال نہیں کیے۔ میں ایسے کئی تن سازوں کو دیکھ چکا ہوں جنہوں نے جس وقت اسٹیرائڈ لینا بند کیے تو ان کا جسم سکڑنا یا ان میں جھریاں پیدا ہوگئیں۔ ہاں آپ پروٹین لے سکتے ہیں کیونکہ یہ سپلیمنٹس ہیں اور نقصاندہ بھی نہیں ہے۔‘

جب میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے کبھی بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ کیوں نہیں لیا تو انہوں نے جواب دیا کہ، ’سچ کہوں تو ہم بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے تھے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ ہمارے پاس وہاں زیادہ کچھ حاصل کرنے کے لیے نہ ہی مطلوبہ وسائل اور نہ ایکسپوجر کی کمی تھی۔‘

افسوس کے ساتھ بشارت کے ساتھ ویٹ لفٹنگ کرنے والے ساتھی اب ان کے ساتھ نہیں ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ’اب وہ انتقال کرچکے ہیں۔‘

آخر میں وہ کہتے ہیں کہ ’ویسے تو میرے اپنے بچے بھی ویٹ لفٹنگ میں دلچسپی نہیں رکھتے البتہ انہوں نے شاٹ پٹ اور سائکلنگ میں طلائی تمغے ضرور جیت رکھے ہیں۔‘


یہ مضمون 7 جولائی 2019ء کو ڈان کے میگزین ایؤس میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں