ایغور ماں اور بیٹے کو باہر بھیجا جائے، آسٹریلیا کی چین سے درخواست

اپ ڈیٹ 18 جولائ 2019
صدام عبدالسلامو کی نادیلا سے شادی 2016 میں سنکیانگ میں ہوئی—فوٹو: بشکریہ بی بی سی
صدام عبدالسلامو کی نادیلا سے شادی 2016 میں سنکیانگ میں ہوئی—فوٹو: بشکریہ بی بی سی

آسٹریلیا کی حکومت نے چین کی ایغور برادری سے تعلق رکھنے والی ایک ماں اور ان کے بیٹے کو بچے کے والد کی اپیل پر آسٹریلیا بھیجنے کی درخواست کر دی۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایغور مسلمان صدام عبدالسلامو نے اپنی اہلیہ اور بیٹے کو آسٹریلیا بلانے کی درخواست کی تھی جن سے وہ طویل عرصے سے نہیں مل سکے۔

چین کی جانب سے ان کی درخواست پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

صدام عبدالسلامو نے روں برس کے اوائل میں اپنے دو سالہ بیٹے لطفی کی شہریت حاصل کی تھی جن سے وہ تاحال نہیں مل پائے جبکہ ان کی اہلیہ نادیلا ومائر چینی شہری ہیں۔

رپورٹ کے مطابق صدام اپنے اہل خانہ کو آسٹریلیا بلانے کے لیے مہینوں سے کوششیں کر رہے تھے لیکن انہوں نے پہلی مرتبہ ایک انٹرویوں میں حال ہی میں اپنی شناخت کے حوالے سے تفصیلات بتائیں۔

مزید پڑھیں:سعودی عرب سمیت 37 ممالک کا ایغور مسلمانوں سے متعلق چین کے مؤقف کا دفاع

ان کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ کو چینی حکام نے سنکیانگ میں مختصر عرصے کے لیے حراست میں رکھنے کے بعد رہا کیا۔

چین میں قائم آسٹریلیا کے سفارت خانے کے عہدیداروں نے بیجنگ حکام سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ مسز نادیلا وومائر اور دو سالہ لطفی کو آسٹریلیا آنے کی جازت دے دیں۔

صدام عبدالسلامو کا کہنا تھا کہ وہ آسٹریلیا کے سفارت خانے کی کوششوں کو مثبت تصور کرتے ہیں لیکن ایک باپ اور شوہر کی حیثیت سے مجھے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ آسٹریلیا اور چین کے وزرا اس حوالے سے براہ راست بات کریں گے اور آسٹریلوی عہدیداروں کو ارومکی شہر میں میرے بچے تک رسائی دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:چین: ‘ایغور اقلیت کو حراستی کیمپوں میں قید رکھنا خوفناک ہے‘

صدام نے اپنی ایغور شناخت ظاہر کرنے سے قبل کہا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کے بیٹے کو ریاستی نگہداشت میں رکھا جائے گا اور اگر چین میں رہ گیا تو اس کو کسی اور خاندان کے حوالے سے کردیا جائے گا۔

آسٹریلیا میں مقیم 29 سالہ صدام عبدالسلامو نے نادیلہ سے 2016 میں سنکیانگ میں شادی کی تھی جہاں دونوں نے بچپن ساتھ گزارا تھا جبکہ وہ آسٹریلیا میں پناہ گزین کے طور پر برسوں سے رہ رہے ہیں۔

آسٹریلیا کی وزیر خارجہ میریس پائین نے کہا تھا کہ ان کے ملک کو مسز نادیلہ وومائر تک قونصلر رسائی نہیں ہے کیونکہ وہ چینی شہری ہیں۔

خیال رہے کہ آسٹریلیا نے گزشتہ ہفتے ہی 22 ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک خط میں دستخط کیے تھے جس میں ایغور برادری کے ساتھ چین کے رویے پر تنقید کی گئی تھی۔

اقوام متحدہ میں شمالی کوریا، روس اور سعودی عرب سمیت دیگر 37 ممالک کے سفیروں نے گزشتہ ہفتے ایک خط جاری کیا تھا جس میں سنکیانگ میں چینی اقدامات کا دفاع کیا گیا تھا۔

دوسری جانب چین نے گزشتہ ہفتے اپنے بیان میں سنکیانگ صوبے میں مسلمان اقلیتوں سے متعلق تقریباً 22 ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ کو ارسال کیے گئے خط کو 'بہتان' قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں:ایغور حراستی کیمپ: اقوام متحدہ کو کھلا خط ’بہتان‘ ہے، چین

چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان زینگ شانگ نے روزمرہ پریس بریفنگ میں کہا کہ اقوام متحدہ کو خط ’چین کے خلاف حملہ، بہتان اور غیر ضروری الزامات‘ پر مبنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خط، انسانی حقوق کے مسائل عوامی سطح پر سیاست چمکانے کی کوشش ہے اور چین کے داخلی امور پر بے جا مداخلت ہے۔

مراسلے پر اقوام متحدہ کے لیے 22 ممالک کے سفیروں نے دستخط کیے جن میں آسٹریلیا، برطانیہ، جرمنی اور جاپان کے سفیر بھی شامل ہیں۔

مراسلے کے متن میں چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو حراستی کیمپوں میں قید کرنے سے متعلق ’مصدقہ رپورٹس‘ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں