رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستانی بچوں کی ایک بڑی تعداد کو کنڈرگارٹن یا نرسری اسکولوں میں داخل ہو رہی ہے (اس معاملے میں پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے بھی پیچھے نہیں)، لیکن بُری خبر یہ ہے کہ ان میں سے بچوں کی ایک قلیل تعداد ہی اسکول میں اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھ پاتی ہے، جبکہ انتہائی بُری خبر یہ ہے کہ جو بچے تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہیں ان میں سے بہت ہی کم، تیسری جماعت کے صرف 4 سے 12 فیصد بچے ہی، روانی سے مطالعے کرنے کے ساتھ زیادہ تر نصابی مواد کو سمجھنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔

جہاں تک سماعتی فہم (listening comprehension) کے اعداد و شمار کا تعلق ہے تو ایسے بہت ہی کم بچے پائے گئے جو اردو میں پوچھے گئے 3 سوالات کا جواب دے سکے۔ ’ایک سوال کا جواب درست دینے پر، انہیں 33.3 فیصد اسکور دیا گیا۔ پورے پاکستان میں اسکور کی شرح 19 سے 32 فیصد کے درمیان رہی۔‘

یہ اعدادو شمار ایک حالیہ رپورٹ وائے کانٹ پاکستانی چلڈرن ریڈ؟ (?Why Can’t Pakistani Children Read) میں شائع ہوئے، اس رپورٹ کو نادیہ نوی والا نامی محقق نے قلمبند کیا ہے اور ولسن سینٹر نامی ایک امریکی تھنک ٹینک نے جاری کیا ہے۔

تعلیمی تناظر میں پاکستان کے لیے یہ کوئی پہلی بُری خبر نہیں ہے۔ کئی دہائیوں سے ملک کے تعلیمی بجٹ کے لیے بہت ہی کم رقم مختص کی جاتی رہی ہے۔ کئی تعلیمی پروگرام شروع ہوئے پھر بیچ میں چھوڑ دیے گئے یوں کوئی جامع بہتری بھی نہیں آئی۔ تحقیق کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے تعلیمی بجٹ میں پہلے کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے جبکہ بین الاقوامی ترقیاتی تنظیموں کی جانب سے شعبہ تعلیم کے لیے مالی امداد کی فراہمی کے وعدے بھی کیے گئے ہیں۔

مجموعی طور پر دیکھیں تو ملک میں جو تعلیم فراہم نہیں کی جا رہی ہے اور جو علم حاصل نہیں کیا جا رہا ہے، اس کے پیچھے فنڈز کا فقدان نہیں ہے۔ جہاں شعبہ تعلیم میں مزید وسائل کے لیے ہمیشہ گنجائش باقی رہتی ہے، وہیں پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم پر حقیقی معنوں میں پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔

افسوس کے ساتھ جو پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اس سے پڑھے لکھے پاکستانی بچے پیدا نہیں ہو رہے ہیں، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں ’تعلیم یافتہ‘ُ ہر وہ شخص قرار پاتا ہے جو پڑھنے کی سادی سی صلاحیت رکھتا ہو۔ کافی زیادہ تحقیق کے بعد مرتب کی جانے والی یہ رپورٹ بے ترتیبی کے شکار تعلیمی نظام کے تضادات، مفروضوں اور ناکامیوں کو ظاہر کرتی ہے، ایسا نظام جس میں ایک طرف اساتذہ کو اپنا فریضہ بہتر انداز میں انجام دینے کے لیے کہا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف ناکامیوں (مثلاً کئی بچے اردو یا انگریزی میں لکھا جملہ بھی پڑھنے سے قاصر ہیں) پر توجہ دینے اور ان سے سیکھ کر بہتری لانے کی خاطر خواہ کوششیں نہیں کی جاتیں۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اکثر بچوں کی نصابی اور گھر پر بولی جانے والی زبانیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ (آپ نے بالکل ٹھیک اندازہ لگایا) یہ نکلتا ہے کہ بچوں میں نصابی زبان کی تحریر سمجھ کر پڑھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی اور ان میں رٹے بازی اور سبق یاد کرنے کا زیادہ سے زیادہ رجحان پیدا ہوجاتا ہے۔

انگریزی کی صورتحال تو اور بھی بدتر ہے، بچوں سے جب انگریزی میں بات کی جائے تو ان کے اندر انگریزی زبان پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کمزوریوں کا خوب اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال کے پیچھے دراصل ابتر مفروضے اور فریبی اصول کارفرما ہیں، یہی وجہ ہے کہ صرف بچے ہی انگریزی زبان پڑھنے یا سمجھنے سے قاصر نہیں بلکہ خود اساتذہ بھی اس زبان سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔

مذکورہ رپورٹ میں شامل ایک سروے کے مطابق، ’پنجاب کے انگلش میڈیم اسکولوں کے 94 فیصد اساتذہ انگریزی بولنے سے قاصر ہیں۔‘

رپورٹ کے مطابق، اگرچہ ’انگلش میڈیم‘ سماجی تناظر میں تعلیمی معیار اور رسائی کو بہتر بنانے کے امکانات تو پیدا کرتا ہے، تاہم تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ان اسکولوں میں انگریزی کی تعلیم دینے والے ویسے تو یہ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ انگلش میڈیم سے ان کی مراد یہ ہے کہ اسکول کا تمام تر تدریسی نظام انگریزی زبان پر مشمتل ہے جبکہ انگلش میڈیم سے ان کی حقیقی مراد نصاب کی زبان سے ہوتی ہے۔ صورتحال کچھ ایسی ہے کہ انگریزی زبان کی نصابی کتب کا ڈھیر لگا دینے سے ایک اسکول کو انگلش میڈیم کہلانے کا اجازت مل جاتی ہے۔

رپورٹ میں 100 کمرہ ہائے جماعت کا سروے بھی شامل کیا گیا ہے، جن میں زیر مشاہدہ آنے والے مسائل کے حوالے سے (سفارشات اور اعداد و شمار کے تجزیے کے ساتھ) ایک جامع تجزیہ پیش گیا ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھتے وقت پورے پاکستان کی خود فریبیوں کو اس ملک کے اسکول جانے والے لیکن ان پڑھ بچوں کی حالت میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

ہزاروں پشتو بولنے والے بچوں کی اردو سمجھنے کی عدم صلاحیت سے زبانی بالادستی سے متعلق مسائل ظاہر ہوتے ہیں، کہ کون سی زبان قومی زبان ہے اور کون سی باعثِ تقسیم۔ جو والدین اپنی پوری چاہ کے ساتھ بچتیں کرکے اور پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول بھیجتے ہیں دراصل وہ اس فریب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ انگریزی زبان مواقع کے دروازے کھولتی ہے، انگریزی ہی بڑی بڑی کامیابیوں کے امکانات روشن کرتی ہے، یعنی ایک ایسی خوشحال زندگی کا سبب بن سکتی ہے جو محرومیوں میں گزرنے والی ان کی اپنی زندگی سے کئی درجہ بہتر ہے۔

مطالعے کی صلاحیت پر بات کی جائے تو سب سے پہلے زبانی سیاست آڑے آجاتی ہے۔ اگر بچوں کو سب سے پہلے مقامی سطح کی تعلیم فراہم کی جائے اور مقامی زبانوں میں پڑھنا سکھایا جائے تو پھر ان میں پڑھنے کی بہتر صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے البتہ اس کام سے چند فریبی تصورات متاثر ہوسکتے ہیں۔ اب جبکہ پاکستان اپنی 72ویں سالگرہ منانے جا رہا ہے مگر اس کے باوجود ابھی تک یہ اتفاق نہیں ہوسکا ہے کہ ملک کی کون سی زبانیں ’دفتری‘ ہیں، کون سی ’اتحاد‘ پیدا کا باعث بنتی ہیں اور کون سی تقسیم کی وجہ بنتی ہیں۔

زبان کے مسئلے کے ساتھ انتخابی سیاست کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے، جو پھر کسی حد تک لسانیت سے جا کر جڑ جاتا ہے۔ کیا ہر صوبے کو یہ فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی دے دی جائے کہ بچوں کو کس زبان کی تعلیم فراہم کی جائے؟ کیا اس فیصلے سے اسکولوں کے لیے مختص وفاقی فنڈز متاثر ہوجائیں گے؟

بہرحال مطالعے کی قابلیت پر مبنی اس رپورٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے تمام جواب طلب سوالات، امیر کو امیر اور غریب کو غریب ہی رکھنے والے طبقاتی نظام اور لسانیت اور زبان کے مختلف مسائل کی اس ملک کو کیا قیمت چکانی پڑی ہے۔

اسکولوں کی صورتحال سے نتائج خود سے عیاں ہیں۔ بچے اسکول جاتے ہیں، اور ان میں سے کئی بچے بڑی بڑی امیدوں اور توقعات کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ پھر سرکاری اسکولوں میں ان کا سامنا نااہل اساتذہ سے ہوتا ہے اور ایک ایسا نصاب پڑھنے کو دیا جاتا ہے کہ جو ان کی اپنی دنیا سے کوسوں دور بسی کسی دوسری دنیا کا نصاب محسوس ہوتا ہے، جس میں شامل الفاظ، آواز اور توقعات سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

لہٰذا کئی بچے اسکول جانا ہی بند کردیتے یں یا پھر باہر نکال دیے جاتے ہیں، جبکہ کئی ایسے خوشقسمت بچے جو ان اسکولوں میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہیں، وہ تعلیم کے ایک سب سے بنیادی مقصد یعنی کسی موضوع کو سمجھ کر پڑھنے یا ذہن نشین کرنے کی قابلیت بھی حاصل نہیں کرپاتے۔

اس سے پہلے تعلیمی نظام کے تناظر میں لکھی گئی تحاریر میں اکثر تعلیم کے لیے اربوں روپے کا اضافی بجٹ مختص کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، تاہم اس تحریر کے ذریعے سرکاری اسکولوں کا انتظام سنبھالنے والے اعلیٰ افسران سے صرف اتنا مطالبہ ہے کہ وہ اس حقیقت پر توجہ دیں کہ جن بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا جو عزم کیا تھا، اسے عملاً پورا کرنے میں آپ تقریباً ناکام ہوچکے ہیں۔

یہ مضمون 17 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Gul ambreen Jul 21, 2019 02:13pm
Achi report hai