جو بچے گھر کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں وہ آگے چل کر کامیاب انسان بنتے ہیں

06 اگست 2019
’جن بچوں سے گھر کا کام کروایا جاتا ہے تب ان میں یہ احساس پیدا ہونے لگتا ہے کہ یہ کام زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔‘—فوٹو:  شٹراسٹاک
’جن بچوں سے گھر کا کام کروایا جاتا ہے تب ان میں یہ احساس پیدا ہونے لگتا ہے کہ یہ کام زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔‘—فوٹو: شٹراسٹاک

جب آپ اپنے بچوں کو رات کا کھانا کھانے کے بعد دسترخوان اٹھانے یا ڈائننگ ٹیبل صاف کرنے یا پھر جب انہیں میلے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالنے کے لیے کہتے ہیں تو ان کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟

اگر وہ اپنے ردِعمل میں بیزاری، چڑچڑا پن یا پھر شور مچانا شروع کردیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں گھر کے کام بورنگ لگتے ہیں۔

تاہم آپ کو بچوں سے گھر کے چھوٹے موٹے کام کروانے چاہئیں۔ جاننا چاہتے ہیں کیوں؟ کیونکہ جو بچے گھر کا کام کرتے ہیں وہ آگے چل کر کامیاب بالغ فرد ثابت ہوتے ہیں۔

جولی لیتھ کوٹ ہائمز نامی محقق کے مطابق جن بچوں سے گھر کا کام کروایا جاتا ہے تب ان میں یہ احساس پیدا ہونے لگتا ہے کہ یہ کام زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔

جب والدین ان کے حصے کا کام کرتے ہیں تو بچوں کے ذہن میں یہ بات گھر کرنے لگتی ہے کہ اگر کوئی دوسرا ان کے کام کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یوں وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ گھر کے کام کس قدر اہمیت رکھتے ہیں اور یہ کہ کس طرح ’تمام افراد کی بھلائی‘ کے لیے ہر ایک کو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔

جولی لیتھ کوٹ ہائمز کو لگتا ہے کہ جو بچے گھر کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں وہ آگے چل کر اچھے ملازمین ثابت ہوتے ہیں، ان کا اپنی ٹیم کے ساتھ بہتر تعاون قائم رہتا ہے اور دیگر افراد کی طرف ہمدردانہ رویہ پیدا ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ انہیں تنِ تنہا مختلف کاموں کا ذمہ اٹھانے میں کسی قسم کا ڈر بھی محسوس نہیں ہوتا۔

چنانچہ بچوں کی تربیت کے دوران انہیں گھر کے چھوٹے موٹے کاموں سے باز مت رکھیں۔ بچوں کی تربیت کا موجودہ طریقہ کار بچوں کو اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کرنے اور ان میں نکھار لانے سے روک سکتا ہے۔

جو والدین اپنے بچوں کی زندگیوں یا ان کی پرورش میں زیادہ عمل دخل نہیں کرتے، ان پر اکثر لوگوں کی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ بالکل ایسا ہونا چاہیے لیکن ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ جو والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بار بار عمل دخل کرتے ہیں اور جو یہ مانتے ہیں کہ بچے اس وقت تک کامیاب انسان نہیں بن سکتے جب تک والدین ہر موڑ پر ان کا تحفظ اور غلطیوں سے باز نہ رکھیں تو ایسے والدین بھی ایک طرح سے لاشعوری طور پر بچوں کی شخصیت کو کافی نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

فکریں تو تمام ہی والدین لاحق ہوتی ہیں لیکن بچوں کو ہر جگہ آپ کے حد سے زیادہ عمل دخل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آپ کا بچہ کوئی چیلنج قبول کرنا چاہتا ہے تو انہیں ایسا کرنے دیجیے اور انہیں چیلنجز سے نمٹنے دیجیے۔ اپنے بچوں کو محفوظ اور تندرست رکھیں۔ انہیں خالی پیٹ مت رہنے دیں۔ انہیں زندگی کے اہم اسباق کا درس دیجیے۔ یہی آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں