قرضوں کے تحقیقاتی کمیشن کے آئی پی پیز سے ’زائد‘ منافع پر سوالات

اپ ڈیٹ 23 جولائ 2019
آئی پی پیز پر زائد منافع لینے کے الزامات دیکھنے میں آئے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی
آئی پی پیز پر زائد منافع لینے کے الزامات دیکھنے میں آئے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی

قرضوں پر تحقیقات کرنے والے کمیشن (آئی سی ڈی) نے بجلی کے شعبے کے گردشی قرضے 900 ارب روپے سے تجاوز کرنے پر انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر (آئی پی پیز) سے جائز منافع مقررہ حد سے زائد وصول کرنے پر سوالات کیے ہیں۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے سابق حکومتوں کے دور میں ملک کے قرضے بڑھنے کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن (آئی سی ڈی) قائم کیا تھا۔

اس حوالے سے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی ثالت کے ذریعے کسی بھی تنازع کو حل کرنے کے معاہداتی اختیار رکھنے والے انکوائری کمیشن کے ساتھ سیشن کے بعد آئی پی پیز کے ایڈوائزری کونسل (آئی پی پی اے سی) کے نمائندے نے نیوز کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ماضی میں ملک کے قرضے بڑھانے میں آئی پی پیز کا کوئی حصہ نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: ’حکومت نے آئی پی پیز کو 9 کھرب 56 ارب روپے اضافی ادا کیے‘

آئی پی پی اے سی کے رکن اور حب پاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو خالد منصور کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن نے بریفنگ کے لیے بلایا تھا اور انہیں ٹیرف کی ترتیب، منظوری کا عمل اور بعد میں آنے والے منافع سے متعلق اعداد و شمار فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال کے اعداد و شمار تحقیقاتی کمیشن کو اس فارمولے کے ساتھ فراہم کیے گئے ہیں کہ کس طرح آئی پی پیز ماضی کا ڈیٹا اور بروقت انداز میں ٹیرف ترتیب دینے کے طریقہ کار کا ریکارڈ شیئر کیے جاسکتے ہیں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز سے متعلق کمیشن کا عام تصور یہ ہے کہ انہوں نے جائز منافع سے 3 سے 4 گنا زیادہ منافع حاصل کیا۔

چیف ایگزیکٹو کا کہنا تھا کہ گردشی قرضے 900 ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں اور 22 آئی پی پیز کے تقریباً 370 ارب روپے حکومت پر واجب الادا ہیں۔

واضح رہے کہ آئی سی ڈی، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی، نیب اور دیگر حکومتی اداروں جیسے مختلف فورمز پر آئی پی پیز کے خلاف سنگین سطح کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ عام تصور ہے کہ آئی پی پیز نے غیر معمولی منافع حاصل کیا لیکن جو یہ شبہات اٹھا رہے ہیں ’ان کے سمجھنے میں بہت بڑا فرق‘ ہے۔

دورانِ گفتگو جب ان سے پوچھا گیا کہ آئی پی پیز نے اس صورتحال کا مقابلہ کس طرح کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تو اس پر خالد منصور کا کہنا تھا کہ یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ جو الزامات لگا جارہے ہیں ان کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت آئی پی پیز کے بلوں کی ادائیگیوں میں تذبذب کاشکار

تاہم انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز تحقیقاتی کمیشن کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں اور اس معاملے پر سینیٹ کمیٹی سمیت وزیراعظم سے بات چیت کے دوران اپنا موقف پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن کو بتایا گیا کہ آئی پی پیز ملک کی کُل بجلی کی فراہمی کا 50 فیصد پیدا کر رہے ہیں اور یہ غیرمنصفانہ ہوگا کہ معاہدوں کے درمیان زمینی قوانین تبدیل کردیے جائیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمیشن کو کہا گیا کہ ’جو آپ کرنا چاہتے ہیں وہ کریں لیکن اس کے اثرات پر بھی غور کریں، ملک کا رسک بڑھے گا جس کے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے پریمیم میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔'

تبصرے (0) بند ہیں