mahir.dawn@gmail.com
[email protected]

آج کل دنیا میں اعلیٰ سیاسی عہدوں کے لیے کسی اخلاقی اصولوں سے عاری انتہائی جھوٹے اور رنگین مزاج اشخاص کو چُننے کا چلن کافی عام ہوچکا ہے۔ ایسا کہا جاسکتا ہے کہ برطانیہ نے دیر سے ہی سہی لیکن اپنا نام ایسے ملکوں کی فہرست میں لکھوادیا ہے۔ تاہم ایک ملک جو بظاہر خود کو نقصان پہنچانے پر پُرعزم نظر آتا اس کے پاس دیگر بہتر آپشنز بھی تو نہیں تھے۔

آج سوائے قدرت کے بورس جانسن کو تھیریسا مے سے وزارت عظمی کا عہدہ لینے اور اس پر خود کو فائز کرنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔

تیز آواز اور سخت گیر لہجے کے عادی اس مسخرہ نما شخص کو ایک فیصد سے بھی کم آبادی نے اس عہدے کے لیے چنا جو کہ ویسٹ منسٹر کے ’جمہوریت‘ کے ماڈل کے تحت ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ آبادی کے جس ایک حصے نے انہیں وزارتِ عظمی کے لیے چُنا ہے وہ برطانیہ کی زیادہ تر آبادی کی نمائندگی ہی نہیں کرتا، کیونکہ ان کا انتخاب کرنے والوں کی اکثریت سفید فام افراد، امراء، مردوں اور ادھیڑ سے زائد عمر والے لوگوں کی ہے۔

شکر ہے کہ جانسن کی مدت میں توسیع کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ان کی کنزرویٹو پارٹی کے بقیہ وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ کی ایک بڑی تعداد اچھی طرح سمجھتی ہے کہ کسی مستحکم معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے علیحدگی ان کے ملک کو کس قدر نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ویسے فی الفور تحریک اعتماد آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ کل سے برطانوی پارلیمنٹ کی گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوجائیں گی۔ بریگزٹ کے لیے اکتوبر کی آخری تاریخوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان تاریخوں سے چند ہفتے قبل ستمبر میں جب ایک بار پھر پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہوگا تب اس کے رویے کا انحصار کافی حد تک اس بات پر ہوگا کہ جانسن چھٹیوں کے دوران کیا کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور کیا نہیں۔

جانسن آخری مرتبہ جیریمی ہنٹ کی انتخابی مہم میں تقاریر کرتے نظر آئے تھے۔ جیریمی ہنٹ کے پاس اِس وقت وزارتِ خارجہ کا قلمدان ہے، اور کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ کی جانب سے انہیں اپنے ووٹ کے ذریعے دوسرے نمبر پر لانا دراصل مائیکل گوو کو کنارے لگانے کے مقصد سے سوچی سمجھی حکمت کے تحت کی گئی ووٹنگ کا پیش خیمہ ہے۔

مائیکل گوو ایک ایسے حریف تھے کہ جن کے ساتھ دوڑ میں سب سے آگے رہنے والے امیدوار مقابلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ جانسن نے ایک ایسی تنظیم کے خلاف ناخوشگوار انداز میں بیان دیتے وقت نرسالمن مچھلی کو ہوا میں لہرایا تھا جس نے آئل مین کے جزیرے پر ایک ماہی گیر کو اپنی پکڑی ہوئی مچھلیاں ایک آئس پیک کے ساتھ برطانیہ کے مرکزی علاقوں تک لے جانے پر مجبور کیا تھا۔

ان کی آواز کو گونج تو شاید ملی، مگر حقیقت یہ ہے کہ آئل آف مین یورپی یونین کا حصہ نہیں ہے اور یہ قاعدہ برسلز نے نہیں بلکہ لندن نے متعارف کروایا تھا۔

یہ ان جھوٹی رپورٹوں کا ایک حصہ ہے جو بیلجیم کے دارلخلافہ میں دی ٹیلی گراف کے نمائندے کے طور پر مقرر جانسن نے اپنی عمر کے 20 برس کے پیٹے میں تیار کی تھیں۔ ان رپورٹس میں یورپی بیوروکریٹس کے بارے میں کھلم کھلا جھوٹ لکھا گیا تھا کہ یہ کیلوں کے ٹیڑھے پن کے اینگل کا پتہ لگانے کے لیے جھک جھک کر دیکھتے ہیں۔ اسے طنز و مزاح کہا جاتا تو ٹھیک تھا، لیکن اسے ایک حقیقت کے طور پر رپورٹ میں شامل کیا گیا۔

اس وقت کے اخبار کے ایڈیٹر میکس ہیسٹنگز نے اپنے حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ،’کنزرویٹو پارٹی برطانوی عوام پر اپنا بدھا مذاق تھوپنے والی ہے۔ اس شخص کو اپنی شہرت اور تسکین کے سوائے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔ یہ شخص بے اصول ہے یا آوارہ گرد، اس پر تو بحث ہوسکتی ہے لیکن ان کے اس اخلاقی دیوالیے پن پر کوئی شک نہیں ہے جو سچ کی توہین میں پنہا ہے۔‘

مذکورہ باتیں تو امریکی صدر کے شخصی پہلوؤں کو بھی خوب انداز میں ظاہر کرتی ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانسن کی عنقریب تاج پوشی پر بے پناہ خوشی کے جذبات باعثِ حیرت نہیں۔

حال ہی میں ہونے والے اس انکشاف پر حیرت کا جھٹکا نہیں لگتا کہ جب جانسن نے ایک سال قبل تھیریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو فضول قرار (خیر یہ الگ بات ہے کہ اس رائے کے باوجود بھی انہوں نے پارلیمنٹ میں اس معاہدے کے حق میں ووٹ ڈالا تھا) دیتے ہوئے ان کی کابینہ کو الوداع کہا تھا۔ تب ٹرمپ کے سابق نظریاتی گرو اسٹیو بینن کو وائٹ ہاؤس اسائنمنٹ سے ہٹا کر یورپ کے دائیں بازو سے رابطوں کا کام سونپ دیا گیا تھا اور انہوں نے ہی جانسن کو اپنی نصیحتوں سے نوازا تھا۔

جو لوگ جانسن کو برطانیہ بلکہ انگلش استحقاق و اشراف پسندی کا ایک سب سے بدترین چہرہ قرار دیتے ہیں ان سے اختلاف کی کچھ خاص وجوہات نہیں ملتیں۔ بلاشبہ یہ وہ واحد ایٹو اور اوکسبرج سے فارغ التحصیل شخصیت نہیں ہیں جو حکمرانی اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے۔ رواں ہفتے تو ان کی اونچی اڑان کی خواہش اپنی انتہا تک پہنچ گئی۔ تاہم کئی بریگزٹ کی سوچ رکھنے والے برطانوی باشندے خود کو ان قوتوں کے خلاف بغاوت کا حصہ تصور کرتے ہیں جن قوتوں کی نمائندگی جانسن کرتے ہیں۔

تھیریسا مے کی جانب سے ڈاؤننگ اسٹریٹ میں الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں انہوں نے اپنی پارٹی اور ناردرن آئرلینڈ کے رجعت پسند ڈیموکریٹک یونینسٹس کو مدعو کیا۔ اس موقعے پر اپنی الوداعی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ان کی ترجیح یہ تھی کہ جیریمی کاربائن کو 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کا رہائشی بننے سے روکا جائے۔

جبکہ دوسری طرف کاربائن کے لیے وزیرِاعظم بننے کے امکانات مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے جانسن کو بہترین امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ بھی ان افراد کی جانب سے جو خود یہ کہتے ہیں کہ ان کی زیرِ قیادت لیبر پارٹی کے پاس کسی قسم کے روشن امکانات ہی نہیں ہیں۔

لیبر پارٹی کے کئی ارکانِ پارلیمنٹ بھی حکومت کے اس تصور کے اتنے ہی مخالف دکھائی دیتے ہیں کہ جس کا مقصد اس نقصان کا کسی حد تک ازالہ کرنا ہے جو مارگریٹ تھیچر اور ان کے پسندیدہ جانشین ٹونی بلیئر کی نیو-لبرل سرپرستی نے برطانیہ کو پہنچایا۔

کوربائن کی لیبر پارٹی کے خلاف متفقہ مہم کا تعلق بریگزٹ پر ان کے ابہام یا پھر نیتن یاہو کی حکومت کی جانب ان کی دائمی نفرت سے نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق اس مقامی ایجنڈے سے ہے جس کی وزیرِاعظم کا انتخاب کرنے والوں میں عام حمایت حاصل ہے، البتہ ان مفادات کے لیے خدشات پیدا کرتا ہے جس کی نمائندگی جانسن کرتے ہیں۔

چلیں کم از کم جانسن بورس کا وزیرِاعظم بننا سوشلسٹ متبادل کے لیے ٹھوس دلیل کی صورت تو پیدا کر ہی سکتا ہے۔ میں دل تھام کر اس لمحے کا انتظار کرتا رہوں گا۔


یہ مضمون 24 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں