گردشی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 200 ارب روپےکے اسلامک بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 30 جولائ 2019
وزارت خزانہ نے 200 ارب روپے کے فوری نقد کے صکوک 2 کو حتمی شکل دینے کیلئے 10 کمرشل بینکوں کے سربراہان کا اجلاس طلب کرلیا — فائل فوٹو/اے ایف پی
وزارت خزانہ نے 200 ارب روپے کے فوری نقد کے صکوک 2 کو حتمی شکل دینے کیلئے 10 کمرشل بینکوں کے سربراہان کا اجلاس طلب کرلیا — فائل فوٹو/اے ایف پی

ملک میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر (آئی پی پیز) سے 11 ارب روپے کا ریلیف حاصل کرنے کے بعد حکومت نے اسلامک بانڈز کے ذریعے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 200 ارب روپے حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ نے پاور پولڈنگ پرائیوٹ لمیٹڈ کے ذریعے توانائی کے شعبے میں 200 ارب روپے کے فوری نقد رقم کے حصول اور اس حوالے سے پاکستان انرجی صکوک-2 کو حتمی شکل دینے کے لیے آج 10 کمرشل بینکوں کے سربراہان کا اجلاس طلب کرلیا۔

میزان اسلامک بینک کی قیادت میں کمپنیوں کے وفد میں دیگر 9 کمرشل بینکوں میں، حبیب بینک، بینک الفلاح، بینک اسلامی، دبئی اسلامک بینک، بینک الحبیب، بینک البراکۃ، نیشنل بینک آف پاکستان، یونائیٹڈ بینک اور فیصل اسلامک بینک شامل ہیں۔

واضح رہے کہ یہ 6 ماہ سے کم عرصے میں توانائی کے شعبے میں 200 ارب روپے کا دوسرا صکوک فنانسنگ ہوگا۔

مزید پڑھیں: قرضوں کے تحقیقاتی کمیشن کے آئی پی پیز سے ’زائد‘ منافع پر سوالات

آئی پی پیز کی جانب سے غیر ادا شدہ بلوں کے معاملے پر عالمی قانونی چارہ جوئی کرنے کے بعد حکومت نے توانائی کے شعبے میں بیل آؤٹ کے لیے پاکستان مشارقہ صکوک کے ذریعے رواں سال مارچ میں 200 ارب روپے حاصل کیے تھے۔

اُس وقت 6 بینکوں سے یہ پیسے لیے گئے تھے جن میں میزان اسلامک بینک، بینک اسلامی پاکستان، فیصل بینک لمیٹڈ، ایم سی بی اسلامک بینک، دبئی اسلامک بینک اور بینک البراکۃ شامل ہیں۔

اس مرتبہ ایم سی بی بینک معاملے سے دور رہا۔

اس سے قبل سود اور دیگر اخراجات سمیت 10 آئی پی پیز کی 35 ارب روپے کی قابل ادا رقم کے حوالے سے لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربٹریشن (ایل سی آئی اے) میں کیس کا فیصلہ حکومت پاکستان کے خلاف آیا تھا۔

پاور ڈویژن کے سیکریٹری عرفان علی نے گزشتہ ماہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کو بتایا تھا کہ حکومت آئی پی پیز سے تارخیر سے ادائیگی پر سرچارج میں رعایت کے لیے بات کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’حکومت نے آئی پی پیز کو 9 کھرب 56 ارب روپے اضافی ادا کیے‘

حکومت نے عالمی عدالت میں کیس جیتنے والے 10 آئی پی پیز سے حتمی مذاکرات کرلیے ہیں جس میں ادائیگیوں پر مارک اپ کو کیبور پلس 4.5 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کرنے پر رضامندی ظاہر کی گئی۔

انہوں نے قابل ادا رقم پر مارک اپ کا اطلاق 35 روز کے بجائے 90 روز کرنے پر بھی رضامندی کا اظہار کیا جس کی وجہ سے حکومت کو 34 ارب روپے کی اصلی لاگت کے بدلے 11 ارب روپے کی رعایت ملے گی۔

دونوں جانب سے اس معاہدے پر آئندہ دو ہفتوں میں دستخط کیے جانے کی امید ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر 2002 کے پاور پالیسی کے تحت پاور ڈویژن نے 10 آئی پی پیز سے بیرون ملک عدالت میں 16 ارب روپے کے تصفیہ کے لیے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔

ان میں سے ایک آئی پی پیز حکام کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ حکومت ریلیف کا تخمینہ زیادہ لگارہی ہو کیونکہ مذاکرات صرف سود کی ادائیگی تک تھے، وہ ہوسکتا ہے کہ چند ارب روپے ہوں مگر 11 ارب جیسا کچھ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تصفیہ کے لیے بیرون عدالت میں محدود رعایت ہوگی اور 45 روز میں واجبات ادا نہ کرنے پر اصلی مارک اپ دوبارہ بحال ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: حکومت آئی پی پیز کے بلوں کی ادائیگیوں میں تذبذب کاشکار

اسی طرح حکام کو امید ہے کہ 200 ارب روپے کے صکوک فنانسنگ کو کابینہ کی اقتصادی تعاون کمیٹی (ای سی سی) کی جانب سے رواں ہفتے منظور کرلیا جائے گا تاکہ قانونی واجبات ادا ہونے کے ساتھ ساتھ تمام آئی پی پیز کو دیگر واجبات بھی ادا کیے جاسکیں اور فیول فراہم کرنے والوں کے 1.4 کھرب روپے گردشی قرضوں سے پیدا ہونے والے فوری نقد کے مسئلے کو بھی حل کیا جاسکے۔

ایک اور حکام کا کہنا تھا کہ ای سی سی نے رواں سال فروری میں 400 ارب روپے کے اسلامک فنانسنگ بانڈز برائے شعبہ توانائی دو مرحلوں میں منظور کیے تھے تاہم دوسرے حصے کے لیے ای سی سی اور کابینہ سے دوبارہ منظوری درکار ہوگی کیونکہ فنانسنگ کی لاگت میں تبدیلی آگئی ہے۔

توانائی کے شعبے میں اسلامک فنانسنگ کو حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے منظور شدہ شرح قرار دیا جاچکا ہے۔

عوامی توانائی کی کمپنیوں کے اثاثوں کو فنانس کرنے والوں کو پہلے ہی گروی رکھا جاچکا تھا جبکہ گزشتہ بانڈز کو حکومت کی جانب سے 10 سالہ ضمانت پر ادا کیا گیا۔

توانائی کی ترسیل اور پیداواری کمپنیوں کے تمام بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اثاثوں/زمینوں کو بینکوں کے جمع کروانے پر رضامندی کا اظہار کیا جبکہ چند اضافی جائیدادوں اور اثاثوں کو ترسیلی اور پیدواری نیٹ ورک کے ادائیگی کے بدلے کفالت کے طور پر بھی چنا گیا ہے۔

خیال رہے کہ قومی الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی، قومی احتساب ادارے اور نو تشکیل شدہ انکوائری کمیشن برائے قرضہ جات آئی پی پیز سے جائز منافع مقررہ حد سے زائد وصول کرنے پر تحقیقات کر رہی ہیں۔

حکومت معاملے پر انٹرنیشنل انجینیئرنگ، قانونی و مالی ماہرین پر مشتمل خصوصی کمیشن قائم کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں