اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آج (بروز جمعرات) ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعتیں اس بات پر مطمئن ہیں کہ وہ صادق سنجرانی کو ان کےعہدے سے ہٹانے میں کامیاب ہوجائیں گی کیونکہ ان کے پاس مطلوبہ سینیٹرز کی تعداد پوری ہے تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام ناکام ہوگا کیونکہ زیادہ تر اپوزیشن ہی کے سینیٹر اپنی ضمیر کی آواز کو سنتے ہوئے صادق سنجرانی کو ووٹ دیں گے۔

تاہم اپوزیشن جماعتوں کے ایک سینیٹر نے حکومت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر وہ اتنے پر اعتماد ہیں تو انہوں نے ڈپٹی چیئرمین کے لیے کسی کو نامزد کیوں نہیں کیا‘۔

ایوان بالا میں پہلی مرتبہ اس کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد دیکھی جائے گی جس کی وجہ سے دونوں قانون کے تحت اجلاس کی صدارت نہیں کرسکیں گے اور اس کے لیے صدر عارف علوی نے متحدہ قومی موومنٹ کے بیرسٹر محمد علی سیف کو نامزد کیا ہے۔

مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ عزت بچائیں اور خود ہی استعفیٰ دے دیں، بلاول بھٹو زرداری

واضح رہے کہ گزشتہ روز سیاسی سرگرمیوں کے لیے اہم تھا جہاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کے سینیٹرز کے لیے ظہرانہ رکھا تھا۔

اس تقریب میں اپوزیشن جماعتوں کو اہم ترین سینیٹ اجلاس میں اپنی حکمت عملی بہتر بنانے کا کہا گیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ فاٹا کے 50 سے زائد اراکین سینیٹ اس ظہرانے میں شریک ہوئے۔

تقریب میں بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق اور اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار برائے سینیٹ چیئرمین میر حاصل بزنجو نے خطاب کیا۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ’صادق سنجرانی کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیں، یہ ان کے لیے اچھا ہوگا کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں ورنہ تو انہیں جانا ہی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سینیٹ: حکومت کے دعوے یا اپوزیشن کا اتحاد، مقابلہ تیار

پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے حکومت کو ہارس ٹریڈنگ سے دور رہنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کی وجہ سے ملک نے ترقی کرنا چھوڑ دیا ہے‘۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی رابطہ کمیٹی کے سینیٹر نے ان کے پارٹی صدر میاں شہباز شریف سے ملاقات کی۔

اس موقع پر شہباز شریف نے امید ظاہر کی کہ ’سینیٹ اجلاس کے دوران جمہوریت اور آئین کی جیت ہوگی‘۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی ایوان بالا میں واضح اکثریت ہے اور حکومت کو خبردار کیا کہ ’ایوان بالا کی کارروائی کے دوران غیر جمہوری اور غیر آئینی رویہ نہ اپنائے‘۔

بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی رہائش گاہ پر شہباز شریف سے ملاقات کی جہاں دونوں رہنماؤں نے سینیٹ اجلاس کے بارے میں بات چیت کی۔

انہوں نے اپوزیشن کے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔

مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد، بیرسٹرسیف پریزائیڈنگ افسر مقرر

میر حاصل بزنجو نے اپوزیشن کے سینیٹرز کے لیے عشائیہ کا انتظام کیا اور اس تقریب میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز بھی خصوصی دعوت پر پہنچی تھیں۔

عشائیہ میں قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر، پیپلز پارٹی کے چیئرمین، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ، پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن اور محمود خان اچکزئی نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’اپنی سیاسی جماعت کو دھوکہ دینے کا وقت گزر چکا ہے اور جماعتوں کو توڑنے کا نظریہ اب شکست کا سامنا کرے گا‘۔

اپوزیشن کے سینیٹرز سے خطاب کرتے ہوئے میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ ’آپ کی قیادت اور آپ کی پارٹی کی عزت داؤ پر لگی ہے، متفقہ فیصلے کے خلاف ایک بھی ووٹ پارٹی قیادت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہوگا‘۔

ذرائع کے مطابق آج اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ اجلاس سے قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن کے سینیٹرز کے لیے ناشتے کی دعوت دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی، پی ٹی آئی

دریں اثنا سینیٹ سیکریٹریٹ نے تمام اراکین کو سینیٹ میں ووٹنگ کے حوالے سے قواعد کا پیغام بھیج دیا ہے۔

سینیٹرز کو بتایا گیا کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو عہدے سے ہٹانے کے لیے تحریک پیش کریں گے جس پر ووٹنگ کی جائے گی۔

ووٹنگ کا عمل خفیہ طور پر ہوگا اور ہر رکن ایک ووٹ ڈال سکے گا۔

اراکین کو پولنگ بوتھ میں موبائل فون یا کیمرا لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور بیلٹ پیپر ظاہر کرنا یا اس کی تصاویر بنانے کی سختی سے ممانعت ہوگی۔

قواعد کے مطابق سینیٹ اجلاس اس وقت تک ملتوی نہیں ہوسکے گا جب تک تحریک کامیاب یا ناکام نہیں ہوجاتی۔

قرارداد کے منظور ہونے پر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو عہدے سے برطرف کردیا جائے گا۔

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن کو 53 ووٹوں کی ضرورت ہوگی جبکہ اپوزیشن کے سینیٹ میں کل67 اراکین موجود ہیں جن میں سے ایک (اسحٰق ڈار) نے اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے دو اراکین نے کارروائی سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں