نابالغ بچہ اپنے والد کے مذہب پر ہوگا، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 02 اگست 2019
بالغ ہونے پر بچہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر سکتا ہے، لاہور ہائی کورٹ — فائل فوٹو
بالغ ہونے پر بچہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر سکتا ہے، لاہور ہائی کورٹ — فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ نے نابالغ بچے کے مذہب سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ نابالغ بچہ والد کے مذہب پر ہوگا۔

ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے نابالغ مسیحی بچی کو حبس بے جا میں رکھنے سے متعلق کیس کی کھلی عدالت میں سماعت کی۔

بچی کی والدہ ناصرہ بی بی نے عدالت کو بتایا کہ 14 سالہ بیٹی مسکان کو کام کے لیے گھر پر رکھوایا لیکن مالکان نے بیٹی کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا اور اب اس سے ملنے نہیں دیا جارہا۔

عدالتی معاون شیراز ذکا ایڈووکیٹ نے کورٹ کو آگاہ کیا کہ 'پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019' کے تحت 15 سال سے کم عمر بچوں کو گھریلو ملازمت پر نہیں رکھا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق نابالغ بچہ اپنے والد کے مذہب پر ہوتا ہے اور ایسے بچے کے مذہب تبدیل کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ اس عمر میں وہ مختلف مذاہب کے درمیان فرق کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔

گھر کے مالک کے وکیل کا کہنا تھا کہ مسکان نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور اب وہ اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، اس لیے اسے اس کے والدین کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت نے بچی کو والدین کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نابالغ بچہ اپنے والد کے مذہب پر ہوگا، بالغ ہونے پر بچہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں