پاکستانی سینما کے اس بدلے ہوئے منظرنامے کی سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ان موضوعات پر بھی فلمیں بنائی جانے لگی ہیں جو 10 یا 15 سال پہلے بنانے کا تصور ہی نہیں تھا۔

فارمولا فلموں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ نوعیت کی ہارڈ کور فلموں کی پاکستانی سینما پر جگہ نہیں تھی مگر اب ایسا نہیں ہے۔ زیرِ تبصرہ فلم ’تیور‘ بھی انہی فلموں میں سے ایک ہے جو اس تاثر کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ کم بجٹ میں اچھی فلم نہیں بنائی جاسکتی۔

ابو علیحہ کا نام پڑھنے والوں کے لیے اجنبی نہیں کیونکہ ’کتاکشا‘ کے ذریعے وہ بطور فلمساز، مصنف و ہدایتکار فلم کے شعبے میں قدم رکھ چکے ہیں۔

ویسے تو ’تیور‘ ان کی پہلی فلم تھی جو ’عارفہ‘ کے نام سے بن رہی تھی مگر پھر ایک تنازعہ کی وجہ سے اس فلم کی ریلیز کو روک دیا گیا تھا، مگر اب وہ بالآخر ریلیز ہوگئی ہے۔

عارفہ کو ایک تنازعہ کی وجہ سے ریلیز کو روک دیا گیا تھا
عارفہ کو ایک تنازعہ کی وجہ سے ریلیز کو روک دیا گیا تھا

80ء کے عشرے کی اس کہانی کو کراچی میں سیٹ کیا گیا ہے اور اس کراچی کو بہادری سے دکھایا گیا ہے جس کے قصے آج بھی دبے لفظوں میں ہی سنائے جاتے ہیں۔ یہ کہانی سسپنس اور تھرلر سے بھرپور ہونے کے ساتھ بھرپور کہانی بھی رکھتی ہے۔

عارفہ (سُکینا خان) اپنی چھوٹی بہن حنا (ایمن خان) اور باپ (اکبر سبحانی) کے ساتھ شہر کے گنجان آباد علاقے میں رہتی ہے۔ عارفہ سے شادی کا خواہش مند اس کا کزن شوکت (تقی احمد) اسے شادی کے لیے راضی کرنے حیدر آباد سے کراچی آتا ہے مگر وہ اسے قائل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ دوسری جانب داور (شارق محمود) ایک چھوٹا گینگ چلاتا ہے جس میں ٹونی (ایاز علی)، موجو (شائز راج) اور بالی (ماجد بلوچ) شامل ہیں جو چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ہیں اور کئی بار جیل جاچکے ہیں۔

حنا یونیورسٹی کے لیے اور باپ کسی کام سے گھر سے باہر جاتے ہیں۔ عارفہ گھر میں پیچھے تنہا رہ جاتی ہے اور شوکت مسلسل اسے راضی کرنے کی کوشش کررہا ہوتا کہ اسی اثنا میں شہر کے حالات خراب ہوجاتے ہیں۔ عارفہ کا باپ تو گھر لوٹ آتا ہے مگر حنا کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ شوکت عارفہ کو تسلی دیتا ہے اور حنا کی تلاش میں نکل جاتا ہے مگر حنا لٹی پٹی شوکت کے ساتھ گھر لوٹتی ہے۔ عارفہ باپ سے یہ سانحہ چھپا لیتی ہے اور چونکہ شہر ہنگاموں کے باعث بند ہوچکا ہے اس لیے شوکت اور عارفہ اسے ہسپتال لے کر نہیں جاسکتے، چنانچہ بے بسی سے اپنے ہی زخم چاٹتے رہ جاتے ہیں۔

داور اور اس کا گینگ لوٹ مار کی نیت سے عارفہ کے گھر میں گھس جاتے ہیں۔ وہاں موجود شوکت جب مزاحمت کرتا ہے تو داور اور اس کے گینگ کے لوگ اسے زخمی کرکے عارفہ اور اس کے باپ کو یرغمال بنالیتے ہیں مگر حنا انہیں پہچان لیتی ہے اور عارفہ کو بتاتی ہے کہ اسی گینگ نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ بس یہ سنتے ہی عارفہ غم وغصے سے پاگل ہوجاتی ہے اور ایک انتہائی جراتمندانہ فیصلہ کرتی ہے اور اس کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے شوکت اس کا بھرپور ساتھ دیتا ہے مگر کیسے؟ اس سوال کا جواب فلم دیکھنے کے بعد ہی ملے گا۔

کہانی، اسکرین پلے، مکالمے

کہانی گوکہ بالکل نئی نہیں ہے، کیونکہ ریوینج ڈراما کئی بار بن چکا ہے البتہ ’تیور‘ میں اسے پیش کرنے کا ڈھنگ پاکستانی سینما کے لحاظ سے نیا ہے۔ کہانی پورے ایک دن پیش آنے والے واقعات کے گرد گھومتی ہے جس کی سب سے بڑی خوبی ’سچ ‘ہے۔

80ء کے عشرے کی کہانی کو بہادری کے ساتھ دکھایا گیا ہے
80ء کے عشرے کی کہانی کو بہادری کے ساتھ دکھایا گیا ہے

سسٹم کی خرابیوں اور معاشرتی بے حسی کو فلم میں جوں کا تُوں پیش کیا گیا ہے اور کسی قسم کی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیا۔ اسکرین پلے مربوط ہے اور کہانی تیزی سے آگے بڑھتی ہے۔ ہر کردار کا مینر ازم اور گیٹ اپ مختلف ہے اور ہر کردار کہانی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

پوری فلم میں ربط کمال کا ہے اور کہیں کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ 20ویں منٹ سے ہی فلم ناظر کو جکڑ لیتی ہے اور وہ بے قراری سے ’اب کیا ہوگا‘ کا انتظار کرنے لگتا ہے جو ایک عمدہ تھرلر کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ مکالمے اس فلم کی اصل روح ہیں، جو جاندار اور ادبی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور سب سے بڑھ کر ذوق پر اچھا اثر چھوڑتے ہیں۔

بیک گراؤنڈ اسکور، سینماٹوگرافی، ایڈیٹنگ

بیک گراؤنڈ اسکور واجبی ہے، بعض سافٹ مناظر میں بہت تیز موسیقی ہے اور بعض ایسے مناظر جن میں پن ڈراپ سائلنس ہونا چاہئے تھا وہاں بھی پسِ پردہ موسیقی استعمال کی گئی ہے جو گراں گزرتی ہے۔

سینماٹوگرافی اس فلم کی دوسری بڑی خوبی ہے۔ تنگ و تاریک گلیوں میں شہر کی اندرونی حالت کو بے حد عمدگی سے عکس بند کیا گیا ہے۔ عارفہ کے گھر کے اندر رات کے وقت شوٹ ہونے والے اہم مناظر اور کلائمکس جس قدر خوبصورتی سے فلمائے گئے ہیں انہیں دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے کہ کم بجٹ میں بھی ایسی نفاست اور جزئیات پیش کی جاسکتی ہیں۔

چونکہ تنازع کی وجہ سے یہ فلم روک دی گئی تھی اس لیے اسے نئے سرے سے ایڈٹ کیا گیا ہے اور کافی مناظر کو فلم سے نکال دیا گیا، مگر فائنل ایڈیٹنگ اس خوبصورتی سے کی گئی کہ نہ فلم کا حسن تباہ ہوا اور نہ ہی کہانی متاثر ہوئی، وگرنہ قوی امکانات تھے کہ ایڈیٹنگ کے بعد ایک گھنٹہ 40 منٹ کے دورانیے کی فلم کچھ خاص اثر نہیں چھوڑ سکے گی۔

اداکاری

مرکزی کردار میں سُکینا خان متاثر کرتی ہے، تقی احمد شروع میں دبا دبا رہا مگر ایکشن سینز میں اس نے اچھی واپسی کی۔ ایمن خان نے زیادتی کا نشانہ بن جانے والی شوخ وشنگ لڑکی کے ڈبل شیڈڈ کردار کو بہت عمدگی سے ادا کیا۔ شارق محمود، ماجد بلوچ، ایاز علی اور شائز راج بھی اپنے منفی کرداروں میں اچھے رہے خاص کر شارق اور ماجد بلوچ۔ متھیرا پوری فلم میں صرف 2 مرتبہ نظر آئی اور متاثر کرنے میں ناکام رہی۔ جبکہ اکبر سبحانی جیسے لیجنڈ فنکار کی بات کی جائے تو وہ صحیح معنوں میں متاثر کرتے ہیں۔

تقی احمد شروع میں دبا دبا رہا مگر ایکشن سینز میں اس نے اچھی واپسی کی
تقی احمد شروع میں دبا دبا رہا مگر ایکشن سینز میں اس نے اچھی واپسی کی

ہدایتکاری

پاکستان میں پورا سچ دکھانے کے لیے ہمت اور جرأت کی ضرورت ہوتی ہے جو ابو علیحہ نے اس فلم میں دکھائی۔ ایک فکشن کہانی ہونے کے باوجود ابو علیحہ نے اسے فینٹسی نہیں بلکہ حقیقی دکھایا اور اتنا ہی کریہہ اور بدصورت جتنا کے حقیقت میں ہے۔ فلم کے تمام تر شعبوں پر ان کی واضح گرفت نظر آتی ہے خاص کر حساس کیمرہ ورک ان کی دوسری بڑی خوبی ہے۔ ’تیور‘ میں وہ ’کتاکشا‘ سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔

حرف آخر

’تیور‘ آف بیٹ سینما کی پاکستان کی ترویج میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ کم بجٹ کی ایسی مضبوط فلموں کی پاکستانی سینما کو ازحد ضرورت ہے۔ خاص کر وہ طبقہ جو فارمولا فلموں کے بجائے ہارڈ کور انٹینس کہانیوں کے ساتھ بھرپور قسم کا ایکشن بھی پسند کرتا ہے، ان کے لیے ’تیور‘ یقیناً ایک تحفہ ہے۔

میری جانب سے 3 اسٹارز۔

تبصرے (0) بند ہیں