گیس نیٹ ورک پر دباؤ، 'پی ایس او' اور 'ایس این جی ایل' کا حکومت سے مدد کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 05 اگست 2019
دونوں کمپنیوں نے توانائی کے شعبے کی جانب سے مقرر شدہ مقدار سے کم گیس لینے کی شکایت کی— فائل فوٹو: اے ایف پی
دونوں کمپنیوں نے توانائی کے شعبے کی جانب سے مقرر شدہ مقدار سے کم گیس لینے کی شکایت کی— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ملک میں ہائیڈرو پاور توانائی کی پیداوار بہتر ہونے اور بجلی کی طلب میں کمی کے باعث حکام مقامی گیس فیلڈز کو گیس کی فراہمی میں کمی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جس کے نتیجے میں گیس کے دباؤ کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے ملک کے گیس نیٹ ورک نے ’خطرے کی گھنٹی‘ بجادی ہے۔

ملک میں مائع قدرتی گیس برآمد کرنے والے سب سے بڑے ادارے اور ریونیو کے لحاظ سے سب سے بڑی کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اور سوئی ناردرن گیس لائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) نے اس مسئلے کے حل کے لیے وزارت توانائی اور وزیراعظم سے اقدامات کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گیس کے دباؤ کی بلند سطح کا خمیازہ گیس نیٹ ورک کا تحفظ داؤ پر لگنے، خزانے پر مالی بوجھ اور بین الاقوامی جرمانے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

چنانچہ اس حوالے سے وفاقی حکومت کے ساتھ بیک وقت ہونے والی بات چیت میں پی ایس او اور ایس این جی پی ایل نے توانائی کے شعبے کی جانب سے مقرر شدہ مقدار سے کم گیس لینے کی شکایت کی اور خبردار کیا کہ اس کے سنگین نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ طلب میں کمی کے باعث گیس پائپ لائنز میں خطرناک دباؤ

اس حوالے سے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ اعلیٰ سطح کے دباؤ کے باعث کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچنے کے لیے حکومت نے ایک عبوری انتظام کے تحت مقامی گیس فیلڈز کے ذریعے گیس کی فراہمی میں کمی کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہفتے کے اختتام پر وفاقی حکومت کو ارسال کیے گئے خط میں ایس این جی پی ایل نے شکایت کی ہے کہ 14 جولائی سے بجلی گھروں کی آر ایل این جی (ریگیسیفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس) کی کھپت 714 ایم ایم سی ایف ڈی (ملین کیوبک فیٹ یومیہ) ہے جبکہ تصدیق شدہ طلب 828 ایم ایم سی ایف ڈی ہے۔

کھپت میں اس کمی کا نتیجہ نظام پر دباؤ کی صورت میں نکل رہا ہے جو 4 ہزار 925 ایم ایم سی ایف ڈی تک جاپہنچا ہے جو 2 اگست کو بھی برقرار تھا۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ بجلی گھروں کی جانب سے آر این ایل جی کی وصولی یکم اگست سے مزید 550 ایم ایم سی ایف ڈی کم ہوئی ہے اور کھپت میں کمی کا سلسلہ جاری رہا تو مزید دباؤ سسٹم کے لیے تباہ کن اور آر ایل این جی کی فراہمی کے پورے نظام کو تہہ و بالا کرسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: درآمدی ایل این جی سے قومی خزانے کو 3 ارب ڈالر کا فائدہ

کمپنیوں کی جانب سے بتایا گیا کہ ’نظام میں گیس کی موجودہ سطح کے نتیجے میں لائن پریشر میں اضافہ ہوا اور پورے نیٹ ورک کے لیے ریڈ الرٹ جاری کردیا گیا‘۔

دوسری جانب پی ایس او نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ لیے گئے تو 15-16 اگست کو پہنچنے والا ایل این جی کا کارگو ’وصول کرو یا ادائیگی کرو‘ کی بنیاد پر چارج کرسکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً 3 کروڑ ڈالر کے کارگو کی قیمت مصنوعات کی وصولی کے بغیر پاکستان کو چکانی پڑے گی۔

پی ایس او نے شکایت کی کہ اس کے مالی امور اور ساکھ داؤ پر لگ سکتی ہے پی ایس او کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے ریگیسفکیشن کی قیمتوں میں بہتری کے باوجود کارگو کی ان لوڈنگ کے کرنے سے متعلق صورتحال بگڑتی جارہی ہے جس کا نتیجہ آنے والے تمام کارگو کی مد میں بھاری خسارے کی صورت میں نکل سکتا ہے'۔

اس ضمن میں ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ بجلی گھروں کو اقتصادی راہداری کی بنیاد پر ہائیر کیا گیا اور اب پانی سے بننے والی بجلی کی پیداوار 7 ہزار 500 اور 8000 کی سطح کو چھو رہی ہے جسے بارشوں کے باعث کم بھی نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: نئے ایل این جی ٹرمینل کے مقام کے تعین کیلئے اسٹڈی کا حکم

ایس این ایل جی کا کہنا تھا کہ گیس کی کم کھپت کے نتیجے میں نظام میں کی گئی گنجائش ختم ہورہی ہے اور دباؤ کے نتیجے میں ’وصول کرو یا ادائیگی کرو‘ کی صورت میں بھاری مالی نقصان کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ کھپت میں کمی کے باعث ہونے والا مالی نقصان توانائی کے شعبے کے کھاتے میں درج ہونا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں