بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اور 35اے کیا ہے؟

اپ ڈیٹ 06 اگست 2019
بھارتی میں انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
بھارتی میں انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بل پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔

صدر کی منظوری کے بعد آرٹیکل 370 ختم کرنے کے حوالے سے بل بھارت کے ایوان بالا راجیا سبھا میں پیش کیا گیا جس پر بحث ہوئی۔

خیال رہے کہ خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

اس قانون کے خاتمے کی بھارتی حزب اختلاف اور کشمیر کے حریت رہنماؤں نے شدید مذمت کرتے ہوئے آج کے دن کو بھارتی جمہوریت کے لیے سیاہ ترین دن قرار دیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بھارتی کی جانب سے یکطرفہ طور پر اس قانون کو ختم کرنے پر خدشہ ظاہر کیا کہ اب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ ہو گا۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیا ہے؟

آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے جس کے تحت ریاست کا اپنا آئین تھا اور اسے خصوصی نیم خودمختار حیثیت حاصل تھی۔

اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیاتی، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر جموں و کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا خوف سچ ثابت ہوگیا‘

بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا تھا۔

نئی دہلی میں احتجاج کے دوران اس قانون کو بھارتی حکومت کی ناکامی قرار دیا گیا. فوٹو: اے ایف پی
نئی دہلی میں احتجاج کے دوران اس قانون کو بھارتی حکومت کی ناکامی قرار دیا گیا. فوٹو: اے ایف پی

1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا تھا۔

اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا تھا۔

آرٹیکل 35 'اے' کے تحت غیر کشمیری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی تھیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔

اس آرٹیکل کو کیوں ختم کیا گیا؟

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور ان کے اتحادیوں نے آرٹیکل 35اے کو امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عدالت میں متعدد درخواستیں دائر کی تھیں۔

حکمران جماعت کے ایک سینئر رہنما نے گزشتہ ماہ عندیہ دیا تھا کہ حکومت اس قانون کو ختم کرنے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کی بستیوں کو آباد کیا جا سکے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنی انتخابی مہم میں آرٹیکل 370 اور اس کی شق 35اے کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

آرٹیکل 370 کو لے کر تنازع کیا تھا؟

  • جموں و کشمیر کے شہریوں کے پاس دوہری شہریت ہوتی تھی۔

  • جموں و کشمیر کی کوئی خاتون اگر ہندوستان کی کسی دوسری ریاست کے شہری سے شادی کر لے، تو اس خاتون کی جموں وکشمیر کی شہریت ختم ہو جاتی تھی۔

  • اگر کوئی کشمیری خاتون پاکستان کے کسی شخص سے شادی کرتی ہے تو اس کے شوہر کو بھی جموں و کشمیر کی شہریت مل جاتی تھی۔

  • آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کے حوالے سے کسی قسم کی قانون سازی کے لیے ریاست کی منظوری لینا پڑتی تھی اور ریاست کی منظوری کے بعد قانون بن جاتا تھا۔

  • آرٹیکل 370 کی وجہ سے کشمیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی ہندوستانی شہریت مل جاتی تھی۔

مزید پڑھیں: ’گنگا میں اشنان کرنے سے کشمیریوں کا لہو نہیں دھلے گا‘

  • اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کے ترنگے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں تھی اور یہاں ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت کا حکم قابل عمل نہیں ہوتا تھا۔
شہری آئین میں تبدیلی پر احتجاج کر رہے ہیں. فوٹو: اے ایف پی
شہری آئین میں تبدیلی پر احتجاج کر رہے ہیں. فوٹو: اے ایف پی

  • مقبوضہ جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا تھا لیکن اب بھارتی پارلیمنٹ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ مقبوضہ کشمیر اپنا جھنڈا استعمال کرسکے گا یا نہیں۔

  • اس آرٹیکل کے تحت جموں و کشمیر میں غیر کشمیری زمین نہیں خرید سکتے تھے۔

  • کشمیر میں اقلیتی ہندووں اور سکھوں کو 16 فیصدریزرویشن نہیں ملتا تھا۔

  • آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر میں آر ٹی آئی(رائٹ ٹو انفارمیشن) نافذ نہیں ہوتا تھا۔

  • مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین کے حوالے سے شرعی قانون نافذ تھا جبکہ پنچایت کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’دوستوں اگر ہم بچ نہ سکیں تو باتوں، دعاؤں میں یاد رکھنا‘

  • مقبوضہ جموں و کشمیر کی اسمبلی کی مدت 6سال ہوتی تھی جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلیوں کی مدت 5سال ہوتی ہے۔

  • ہندوستان کی پارلیمنٹ کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے معاملات میں زیادہ آزادی نہیں تھی اور بہت ہی محدود دائرے میں قانون بنا سکتی تھی۔

  • اس قانون کے خاتمے تک جموں و کشمیر میں کام کرنے والے چپڑاسی کو آج بھی ڈھائی ہزار روپے ہی بطور تنخواہ ملتی تھی۔

قانون کے خاتمے کے بعد اب کیا ہو گا؟

اس خصوصی قانون کے خاتمے کے بعد اب بھارت بھر کے رہائشی مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید کر مقبوضہ وادی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کر سکیں گے۔

کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ اب بڑی تعداد میں ہندو مقبوضہ کشمیر کا رخ کریں گے اور یہاں رہائش اختیار کریں گے جس کے نتیجے میں مسلم اکثریتی خطے میں جغرافیائی تبدیلیاں آئیں گی اور مقبوضہ کشمیر ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل ہو جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں