مقبوضہ کشمیر سے متعلق یکطرفہ فیصلہ کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

اپ ڈیٹ 06 اگست 2019
مقبوضہ کشمیر میں اضافی بھارتی فوجی تعینات کیے گئے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
مقبوضہ کشمیر میں اضافی بھارتی فوجی تعینات کیے گئے ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے خبردار کیا ہے نئی دہلی کی جانب سے '(خطے) کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر مقبوضہ جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا فیصلہ اور شہریوں کے حقوق کو مکمل طور پر معطل کرنا' خطے میں کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

خیال رہے کہ پیر کو بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے کشمیریوں سے وہ خصوصی حیثیت واپس لے لی تھی جو انہیں 7 دہائیوں سے ملی ہوئی تھی، اس کے علاوہ مقبوضہ وادی میں غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کرکے منتخب رہنماؤں کو نظر بند کردیا گیا تھا۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے ختم ہونے سے پورے بھارت سے تعلق رکھنے والے لوگ اب مقبوضہ کشمیر میں جائیداد لے سکیں گے اور وہ وہاں مستقل طور پر رہائش اختیار کرسکیں گے۔

مزید پڑھیں: بھارتی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ طلبی، مقبوضہ کشمیر پر غیرقانونی اقدام پر احتجاج

کشمیریوں سمیت ہندو قوم پرست جماعت کی بھارت سرکار کے ناقدین اس اقدام کو مسلم آبادی والے کشمیر کو ہندو آبادکاروں سے تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

تاہم اس معاملے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایک بیان میں کہا گیا کہ 'بھارت کی حکومت کا مقبوضہ علاقے کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر آئین کے تحت اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ، شہری حقوق کو مکمل طور پر معطل کرنا اور مواصلاتی نظام کو مکمل طور پر بند کرنے سے ممکنہ طور پر کشیدگی جبکہ ریاست میں لوگوں کو الگ تھلک کرنے اور انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیوں کا خطرہ ہے'۔

انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ 'ریاست میں بدامنی اور بڑی سطح پر احتجاج کا باعث بن سکتا ہے' لیکن بھارتی حکومت کی جانب سے مظاہروں اور احتجاج کو 'بھاری طاقت' سے روکنے کی حکمت عملی سے 'گزشتہ کچھ برسوں میں لوگوں کو اندھا کرنے، قتل کرنے اور تکلیف پہنچانے، جیسی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی گئیں'۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ وادی میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوج تعینات کردی گئی ہے اور کرفیو نافذ کرکے رہائشیوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو محدود کردیا گیا ہے اور انہیں پرامن احتجاج کے حق سے روکا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا خوف سچ ثابت ہوگیا‘

ادارے کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'جموں اور کشمیر میں ٹیلی کمیونکیشن سروسز کو غیرمعینہ مدت کے لیے معطل کرنا بھی بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق نہیں'۔

بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکر پٹیل کے حوالہ سے کہا گیا کہ 'گزشتہ کچھ دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں سیکیورٹی فورسز کی اضافی تعیناتی، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی، پرامن اسمبلی پر پابندی کو دیکھا جارہا ہے، جس نے یہاں کے عوام کو پہلے ہی ایک کنارے پر کردیا ہے جبکہ اس صورتحال کو مزید سنگین اس وقت بنایا گیا جب اہم سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو نظربند کردیا گیا اور مقبوضہ وادی کے بارے میں پارلیمنٹ کا اہم فیصلہ وہاں کے لوگوں کی مشاورت کے بغیر لیا گیا'۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے بیان میں زور دیا کہ مقبوضہ وادی میں 'خلاف ورزیوں کا خاتمہ' اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک یہاں کے لوگوں کو اس معاملے میں بولنے کی اجازت نہ دی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں