اسکول وینز اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سی این جی، ایل پی جی کے استعمال پر پابندی عائد

اپ ڈیٹ 06 اگست 2019
پبلک ٹرانسپورٹ میں غیر قانونی طور پر کیبنز کے اندر سلینڈر لگانے کے باعث آگ لگنے کے سنگین حادثات ہوتے ہیں —فائل فوٹو: رائٹرز
پبلک ٹرانسپورٹ میں غیر قانونی طور پر کیبنز کے اندر سلینڈر لگانے کے باعث آگ لگنے کے سنگین حادثات ہوتے ہیں —فائل فوٹو: رائٹرز

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے عوامی سطح پر استعمال ہونے والی تمام گاڑیوں بشمول اسکول وینز میں حفاظتی مقاصد کے پیشِ نظر کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) اور لیکویفائیڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔

جس کے بعد موٹروے پولیس نے ایم-1 اور ایم-2 موٹرویز سے گزرنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کی ایسی تمام گاڑیوں (پی ایس ویز) کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا، لیکن سی این جی مالکان کی ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ وہ اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت توانائی، صوبائی حکومتوں، آزاد کشمیر حکومت، پولیس کے اعلیٰ عہدیداران اور سی این جی ایسوسی ایشنز کے نام خط میں اوگرا کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کی تجاویز پر اور سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرول استعمال کریں یا سی این جی؟

اوگرا نے اپنے مراسلے میں صوبائی حکومتوں اور موٹروے پولیس کے انسپکٹر جنرل سے ایسی تمام پی ایس ویز کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی درخواست کی جنہوں نے مسافروں کے کمپارٹمنٹ میں سی این جی سلینڈر نصب کیے ہوئے ہیں، جس کا مقصد ان پی ایس ویز میں سفر کرنے والے مسافروں کی قیمتی جانیں محفوظ بنانا ہے۔

پی ایس ویز میں سی این جی کے استعمال پر پابندی کے علاوہ اوگرا کا کہنا تھا کہ ’ایل پی جی سلینڈرز کے ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں استعمال پر مکمل پابندی ہے اور اگر کسی گاڑی میں ایل پی جی سلینڈر پایا گیا تو اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے نمٹا جائے گا‘۔

حال ہی میں حکومتِ پنجاب نے اوگرا اور ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ پاکستان (ایچ ڈی آئی پی) کو کہا تھا کہ پی ایس ویز بالخصوص ہائی ایس وینز (پرانی/ نئی) میں غیر قانونی طور پر کیبنز کے اندر سلینڈر لگانے کے باعث آگ لگنے کے سنگین حادثات رونما ہوتے ہیں اور ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے لیے سڑک پر چلنے والی ہر پی ایس وی کو چیک کرنا ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں: کیا اسکول وین مالکان بچوں کی حفاظت کے لیے ’یہ‘ اقدامات اٹھائیں گے؟

لہٰذا صوبائی حکومت نے اوگرا سے درخواست کی کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں گیس سلینڈر کے استعمال پر پابندی عائد کردی جائے۔

سیکریٹری ٹرانسپورٹ پنجاب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ایچ آئی ڈی پی کو ہر ضلع میں ورکشاپ کھولنی چاہیے تاکہ پی ایس ویز میں گیس کِٹس اور سلینڈرز کی کوالٹی کی جانچ کی جاسکے لیکن کوئی ورکشاپ فعال نہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں مطلوبہ مہارت کا فقدان پایا جاتا ہے۔

اس ضمن میں ریگولیٹر کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 19 جون کو دیے گئے حکم میں تمام ضلعی عملدرآمد کمیٹیوں کو ہدایت کی تھی کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے یا حادثے سے بچنے کے لیے اپنی ذمہ داری سندھ حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں موجود ٹرم آف ریفرنسز کے مطابق پوری کریں۔

اوگرا کا اپنے خط میں کہنا تھا کہ ’مسافروں کی حفاظت یقینی بنانے اور کسی بھی نا خوشگوار واقعے یا حادثے سے بچنے کے لیے اتھارٹی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ عوامی استعمال کی گاڑیوں میں سی این جی اور ایل پی جی سلینڈر پر پابندی عائد کی جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'افسوس ہوتا ہے گیس کا بہت بڑا ذخیرہ ہم نے چولہوں میں جھونک دیا'

دوسری جانب آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن نے پی ایس ویز وین میں سلینڈر پر پابندی عائد کرنے کے حکومتی فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کی دھمکی دے دی۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ویز سلینڈر چھت پر نصب کرسکتی ہیں کیوں کہ اوگرا نے گاڑیوں کے اندر سے سلینڈر نکالنے کی ہدایت کی ہے ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر سی این جی سلینڈر کی حامل تقریباََ 5 لاکھ پی ایس ویز موجود ہیں اور تمام گاڑیوں میں سی این جی کے استعمال پر پابندی کا مطلب سی این جی کے شعبے کی تباہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں