300 سے زائد غیر منافع بخش ’اداروں‘ کے لائسنس منسوخ

اپ ڈیٹ 09 اگست 2019
ایس ای سی پی میں ایک ہزار سے زائد این پی اوز رجسٹرڈ ہیں جن میں 303 کا متعدد وجوہات کی بنا پر فہرست سے اخراج کیا گیا — فائل فوٹو/رائٹرز
ایس ای سی پی میں ایک ہزار سے زائد این پی اوز رجسٹرڈ ہیں جن میں 303 کا متعدد وجوہات کی بنا پر فہرست سے اخراج کیا گیا — فائل فوٹو/رائٹرز

اسلام آباد: سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے مزید 13 غیر منافع بخش اداروں (این پی او) کے لائسنس کی منسوخی کے بعد رجسٹرڈ کمپنیوں کی فہرست سے اخراج کا سامنا کرنے والی این پی اوز کی تعداد 303 ہوگئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق این پی اوز کو کمپنیز ایکٹ 2017 کے سیکشن 42 کے تحت رجسٹر کیا جاتا ہے اور 13 این پی اوز کا لائسنس، اکاؤنٹس اور ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے سمیت دیگر ضروریات پوری نہ کرنے پر واپس لیا گیا۔

ایس ای سی پی کے مطابق ان میں سے چند کمپنیاں آپریشنل نہیں تھیں، ان کے لائسنس کی منسوخی کے بعد ان کمپنیوں کو رضاکارانہ طور پر بند ہونے کے لیے کارروائی پر عمل کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: 'تمام این جی اوز کی نگرانی کرنا ایس ای سی پی کیلئے مشکل عمل'

قانون کے مطابق اگر کسی ادارے کے پاس کوئی اثاثہ یا قرض نہیں ہو تو اسے کمپنیز ایکٹ 2017 کے سیکشن 43 کے تحت کمپنیوں کے رجسٹر سے اپنا نام ہٹانے کے لیے درخواست دینی ہوگی۔

ایس ای سی پی میں ایک ہزار سے زائد این پی اوز رجسٹرڈ ہیں جن میں 303 کا متعدد وجوہات کی بنا پر فہرست سے اخراج کیا گیا۔

ایس ای سی پی کے سینئر حکام کا کہنا تھا کہ فہرست سے اخراج کیا جانا معمول کی کارروائی ہے اور اس کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سمیت عالمی اعتراضات سے کوئی تعلق نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایس ای سی پی کی جانب سے اینٹی منی لانڈرنگ ریگولیشنز جاری

ان کا کہنا تھا کہ 'آغا خان یونیورسٹی ہسپتال سمیت کئی اداروں کا ان کی انتظامیہ نے فہرست سے اخراج کردیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'این پی اوز کو بند کرنے کی متعدد وجوہات ہیں کیونکہ کئی اداروں کی انتظامیہ کمرشل کمپنی بننے کا فیصلہ بھی کرلیتی ہیں جو منافع کماسکیں یا کسی دیگر این جی او یا این پی او سے اپنے آپریشنز کا الحاق کرکے ایک ادارہ بند کرسکیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں