لکھاری مصنف ہیں۔
لکھاری مصنف ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہر دن کی ابتدا ایک نئے معاملے کو بگاڑنے کے عزم لیے ہوتی ہے۔ شمالی کوریا کے تخفیفِ جوہری اسلحہ کا معاملہ دیکھ لیجیے۔ ہانوئی اور پھر سنگاپور میں کم جونگ ان کی جانب سے صاف انکار کے باوجود بھی ٹرمپ کم جونگ کو جوہری امن پسندی (Nuclear Pacifism) کی طرف لانے کے مشن پر جٹے رہے۔

ٹرمپ شمالی اور جنوبی کوریا کی سرحد پر ڈرامائی مصافحے سے حاصل ہونے والی تشہیر میں اس قدر محو تھے کہ اگلے دن شمالی کوریا کے اخبارات پر نظر نہ پھیر سکے، جن میں دونوں رہنماؤں کے درمیان خوش مزاجی کو ایسی للچاہٹ کے طور پر پیش کیا جو لذیذ لڈو کو دیکھ کر دل میں پیدا ہوجاتی ہے۔

ان کے داماد جیرڈ کشنر کی مشرقی وسطیٰ میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان صلح کرانے کے منصوبے کی ناکامی کا معاملہ بھی ٹرمپ کی ترجیحات میں سب سے نیچے آچکا ہے۔

جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو ٹرمپ کی دلی خواہش ہے کہ اگلے سال ہونے والے انتخابات سے پہلے وہاں سے فوجی انخلا ممکن بنایا جائے اور اس دوران لاشوں کے انبار نہ لگیں اور ساکھ بھی برقرار رہے۔ پریشانی کے عالم میں انہوں نے افغان طالبان پر پاکستان کے اثر و رسوخ کی نازک کٰلی کودبوچ لیا ہے۔ ان کے اسٹیٹ سیکریٹری مائیک پومپیو نے نجی حیثیت میں پاکستان کو نصیحت کی ہے کہ واشنگٹن جانے کا راستہ کابل سے ہو کر گزرتا ہے۔ پومپیو اب اس سے زیادہ اور واضح پیغام کیا دے سکتے ہیں کہ، ’طالبان کے ذریعے ہمیں فائدہ پہنچائیں اور ہم آپ کی غیر قانونی مداخلتوں کو معاف کردیں گے۔‘

اب کشمیر کے معاملے پر آتے ہیں، ٹرمپ کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو اوول آفس میں ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار کرنے کی خواہ مخواہ آفر دی گئی تو اگلے ہی لمحے بھارتی وزارت خارجہ نے اس پیش کش کا گلا گھونٹ دیا، بعدازاں بھارتی وزیراعظم نرندر مودی کی جانب سے جموں و کشمیر اور لداخ کے ناقابل جواز الحاق کیے جانے کے بعد پیش کش کو خاک میں ملا دیا گیا۔ جس کے بعد ٹرمپ نے اس اعلان کی ذمہ داری اپنے ترجمان کو سونپی کہ امریکا کے نزدیک دفعہ 370 کی منسوخی بھارت کا ’داخلی معاملہ‘ ہے۔

ٹرمپ ثالث کار بن کر آخر کیا حاصل کرنے کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے؟ جموں و کشمیر کے ٹکڑوں کو یکجا کرنا؟ ٹھیک ویسے ہی جیسے وہ شمالی اور جنوبی کوریا کے ساتھ کرچکے تھے؟ یا پھر لاہور کی زمین پر اترتے اور واہگہ بارڈر کی سفید سرحدی پٹی کے پار جا کر وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی موجودگی یا عدم موجودگی میں مصافحہ کرتے؟ یا پھر چینیوں کے ساتھ تعاون کرتے اور ٹوٹی پھوٹی سانسیں لے رہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دوبارہ زندہ کرنے میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی مدد کرتے؟

انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کی سادہ سی وجہ ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی امریکا کا اثر و رسوخ اور دائرہ اثر ماند پڑگیا ہے۔ جلد ہی برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی مدد سے یہ دائرہ ڈاور کے سفید پہاڑوں تک ہی محدود رہ جائے گا۔

1971 کے بعد سے کسی ایک بھی بحران میں بطور براعظم امریکا اور چین کے درمیان فاصلے کے زبردست فرق کو اتنی زیادہ توجہ حاصل نہیں ہوئی جتنی کہ حالیہ کشمیر تنازع کے دوران ہوئی۔

ہینری کسنجر نے جولائی 1971 میں بیجنگ کا اہم دورہ کیا اور اس موقعے پر چینی وزیراعظم چو این لائی کو یقین دہانی کروائی کہ امریکا ’ہر ممکن کوشش کر رہا ہے‘ کہ مشرقی پاکستان (جو بعدازاں بنگلہ دیش بنا) کے معاملے پر پاک بھارت جنگ نہ ہو۔ چو این لائی نے چینی تیز فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ ’ویسے بھی امریکا زیادہ کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ ہم (دراصل امریکا) 10 ہزار میل دُور تھے۔‘

کسنجر نے ان دنوں چینیوں کے بارے میں جو رائے قائم کی تھی، وہ آج بھی گونجتی ہے۔ ’بھارتیوں کی جانب چینیوں کی نفرت واضح دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔ اس کے برعکس چین پاکستان کے ساتھ ایک مضبوط اور قابل اعتماد دوست کے طور پر دوستی کے رشتے کا کھل کر اظہار کیا گیا۔‘ چو این لائی دوطرفہ تعلقات پر چین کے رہنما اصول و نظریات پر زور دینا چاہتے تھے۔ ’وہ جو چین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنی زبان کے پکے ہیں ان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ روا رکھا جائے گا۔‘

رواں ماہ کے آغاز میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ بیجنگ میں ایسی کئی باتیں ہوئیں جو پاکستان کے لیے اہمیت کی حامل ہیں۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر ’اقوام متحدہ کے میثاق، متعلقہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں اور دوطرفہ معاہدے کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ چین ’پاکستان کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ میں مدد جاری رکھے گا اور عالمی منظرنامے پر انصاف کے لیے پاکستان کی حمایت کرتا رہے گا۔‘ اس قسم کی زبردست حمایت بھارت کو ہضم نہ ہوئی، اس لیے پاکستانی وزیر خارجہ کے اس اہم دورے پر سیخ پا ہو کر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر وانگ ژی سے ملنے بیجنگ پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے اس بات کو ایک بار پھر دہرایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی بھارت کا ’داخلی معاملہ‘ ہے، ٹھیک جس طرح چین کا مؤقف رہا کہ 1950 میں تبت پر قبضہ اور اس کے بعد اسے خودمختار خطے کی حیثیت دینا چین کا ’داخلی معاملہ‘ تھا۔

ضروری بات یہ ہے کہ وانگ ژی نے اس امید کا اظہار کیا کہ بھارت بھی چین کی طرح علاقائی امن اور استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کرے گا۔ جے شنکر نے چین کو یہ یقین دہانی کروائی کہ بھارت زمین پر قبضے کے مقاصد نہیں رکھتا اور وہ ان دونوں کے درمیان 3 ہزار 488 طویل لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا احترام کرتا ہے۔ (کیا بھارت اکسائی-چن کے چینی قبضے کو عملاً قبول کرچکا ہے۔) تاہم چینیوں نے بھارت کی جانب سے ’لداخ کو یونین ٹیریٹری میں شامل کرنے پر یہ کہتے ہوئے اعتراض کھڑا کیا ہے کہ اس عمل سے چین کی زمینی خودمختاری کو ٹھیس پہنچی ہے۔ یہ دونوں ملک اختلافات کو تنازعات میں بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے مگر اس کے باوجود چین-بھارت مباحثے کا بیج پھوٹ چکا ہے۔

یہ تمام تر پنگ پونگ سفارتکاری کشمیری مسلمانوں کو امن و سکون کی فراہمی کے لیے ناکافی ہے۔ وہ جب کھڑے ہوتے ہیں تو انہیں گولیوں سے اندھا بنا دیا جاتا ہے، ایک منصوبہ بندی کے تحت بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے اور گرا دیا جاتا ہے، اور اب تو صورتحال نسل کشی کی نہج تک جا پہنچی ہے۔

اگر یہی صورتحال رہی تو کشمیر دوسرا مسلم کوسوو بن جائے گا۔

یہ مضمون 15 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

mansour haidar raja Aug 17, 2019 09:32am
کشمیر کی موجودہ صورت حال کے متعلق امریکہ اور اقوام متحدہ کے کردار کی شاندار عکاسی پر مشتمل آرتیکل ہے ۔ ایسی کاوش سراہنے کے قابل ہے اور یہ سلسلہ یونہی جاری رھنا چاہیے ۔۔