ہوسکتا ہے بہت جلد دنیا کے اس مقبول ترین پھل کی غیرحاضری کو شدت سے محسوس کرنے لگے۔

جی ہاں کیلے ممکنہ طور پر جلد ماضی کا قصہ بن کر رہ جائیں گے کیونکہ اس پھل کی بقا کو ایک قسم کی فنگس سے خطرہ لاحق ہے جو اب لاطینی امریکا بھی پہنچ گئی ہے جو کہ دنیا بھر میں کیلوں کی سپلائی کے حوالے سے اہم ترین خطہ ہے۔

کولمبین ایگریکلچرل انسٹیٹوٹ کے مطابق کولمبیا میں اس خطرناک ٹی آر 4 فنگس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد قومی سطح پر ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا ہے۔

یہ پہلی بار ہے جب اس فنگس کو لاطینی امریکا میں دیکھا گیا ہے جو اس وقت ایشیا، آسٹریلیا اور مشرقی افریقہ میں کیلوں کی پیداوار پر تباہ کن اثرات مرتب کرچکی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ یہ فنگس انسانوں کے لیے نقصان دہ نہیں مگر کیلوں کی پیداوار کے لیے سنگین خطرہ ضرور ہے۔

یہ فنگس کسی بھی زمین کی سطح پر 30 برس تک موجود رہ سکتی ہے اور یہ پودوں کے نظام میں مداخلت کرکے انہیں خشک کردیتی ہے جس سے وہ جلد مرجاتے ہیں۔

ایک بار جب یہ فنگش زمین کی سطح میں چلی جائے تو پھر پودوں کا علاج ممکن نہیں ہوتا جبکہ اسے ہٹانا بھی بہت زیادہ مشکل ثابت ہوتا ہے اور یہ سب سے زیادہ کیلوں کی اس قسم کو نشانہ بناتی ہے جو دنیا بھر میں کھائے جاتے ہیں۔

Cavendish banana کیلوں کی وہ قسم ہے جو آپ بازاروں میں عام دیکھتے ہیں تاہم اس کے پودوں میں انفیکشن بہت تیزی سے پھیلنے کا امکان ہوتا ہے۔

اس فنگس نے اب تک کولمبیا میں 175 ہیکٹر رقبے کو متاثر کیا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے متاثرہ حصے میں فصل کو خود تباہ کیا گیا ہے۔

یہ واحد انفیکشن نہیں جو کیلوں کے لیے خطرہ ہے درحقیقت رواں سال ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی ایک ایسے انفیکشن کے پھیلاﺅ میں کردار ادا کررہی ہیں جو کیلے کے پودوں کو متاثر کرکے پھل کی پیداوار 80 فیصد تک کم کرسکتا ہے۔

جریدے جرنل Philosophical Transactions of the Royal Society B میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ انفیکشن کیلے کے پودے کے پتوں پر حملہ آور ہوتا ہے جس کے باعث کیلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

یہ انفیکشن 1972 میں سب سے پہلے ہونڈراس میں رپورٹ ہوا جس کے بعد 1998 میں برازیل اور کیرئیبین جزائر تک پہنچا جبکہ اگست 2004 میں پیورٹو ریکو میں کیلوں کی فصل اس سے متاثر ہوئی۔

اب یہ انفیکشن امریکی ریاست فلوریڈا تک پھیل چکا ہے جس کے باعث کیلوں کی پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے کیونکہ اس انفیکشن کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت زیادہ ادویات کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور وہ بہت ادویات بہت زیادہ مہنگی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں