جعلی اکاؤنٹس کیس: قائم علی شاہ کی عبوری ضمانت منظور

20 اگست 2019
قائم علی شاہ کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ انکے موکل نیب کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی
قائم علی شاہ کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ انکے موکل نیب کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں صوبہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) رہنما کی ضمانت 29 اگست تک کے لیے منظور کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے انہیں 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا بھی حکم دیا۔

قائم علی شاہ کے وکیل نے عدالت میں موقف پیش کیا کہ ان کے موکل قومی احتساب بیورو (نیب) کی تفتیشی ٹیم کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں لہٰذا ان کی درخواست ضمانت قبول کی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: قائم علی شاہ کی ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے درخواست

سابق وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے دائر درخواست میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال اور دیگر عہیدیداران کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ انسدادِ بدعنوانی کا ادارہ ان سے باغ ابنِ قاسم کی رفاہی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے 2 پلاٹس کے ساتھ اس کے انضمام کے حوالے سے تفتیش کررہا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سجاد علی عباسی کو اس الزام پر نیب نے گرفتار کیا کہ بحیثیت ایگزیکٹو ڈسٹرک آفیسر (ریونیو) کراچی وہ اس کمیٹی کا حصہ تھے جس نے رفاہی پلاٹ گیلیکسی کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹڈ کو دیا۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس میں قائم علی شاہ کی عبوری ضمانت منظور

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے ساتھ وہ اس کمیٹی کا بھی حصہ تھے جس نے باغِ ابنِ قاسم کی زمین مذکورہ کمپنی کے لیے ریگولرائز کی گئی۔

درخواست گزر نے وضاحت کیا کہ گیلکسی کنسٹرکشن کمپنی نے زمین کی الاٹمنٹ کے لیے 20 مئی 2008 کو وزیراعلیٰ کے دفتر میں درخواست جمع کروائی تھی۔

مذکورہ درخواست کو متعلقہ حکام کے پاس بھجوایا گیا تھا جس پر سجاد عباسی نے تعمیراتی کمپنی کے لیے 70 ہزار روپے فی مربع گز کی قیمت پر زمین کی الاٹمنٹ کی تجویز دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: قائم علی شاہ کا ضمانت قبل از وقت گرفتاری کیلئے عدالت سے رجوع

بعدازاں 25 جون 2008 کو اسکروٹنی کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس میں بلدیاتی محکموں اور زمین کے استعمال کے محکمے کے افسران موجود تھے۔


یہ خبر 20 اگست 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں