نئی گج ڈیم کی لاگت 3 گنا بڑھنے پر سینیٹ کمیٹی کا اظہار تشویش

اپ ڈیٹ 21 اگست 2019
محکمہ آبپاشی سندھ کے حکام کاکہنا تھا کہ سندھ حکومت اپنا حصہ ادا کرنے کیلئے تیار ہے — فائل فوٹو: اے پی پی
محکمہ آبپاشی سندھ کے حکام کاکہنا تھا کہ سندھ حکومت اپنا حصہ ادا کرنے کیلئے تیار ہے — فائل فوٹو: اے پی پی

پارلیمانی کمیٹی نے سینیٹ اجلاس کے دوران نئی گج ڈیم کی تعمیر میں مسلسل تاخیر اور اس کی لاگت تین گنا تک بڑھ جانے پر تعمیراتی کمپنی کی کارکردگی پر اعتراضات اٹھادیے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات کو اجلاس کے دوران نئی گج ڈیم کے منصوبے سے متعلق بتایا گیا، جس کا آغاز 2009 میں ہوا تھا تاہم ڈیزائن میں تبدیلی اور مالی مسائل کی وجہ سے وہ تاخیر کا شکار ہے۔

سیکریٹری منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات ظفر حسن نے کمیٹی کو بتایا کہ نئی پانی پالیسی کی وجہ سے یہ معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ ہوچکا ہے، یہ معاملہ عدلیہ کی زیر نگرانی ہے جس کے بہترین حل کا انتظار کیا جارہا ہے۔

نئی گج ڈیم کی ابتدائی لاگت 17 ارب روپے تھی — فوٹو: ڈان اخبار
نئی گج ڈیم کی ابتدائی لاگت 17 ارب روپے تھی — فوٹو: ڈان اخبار

کمیٹی اجلاس کے دوران سینئر حکام نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور سندھ حکومتوں کے درمیان بات چیت تعطل کا شکار ہے کہ 2009 میں تجویز کی گئی لاگت، 16 ارب 90 کروڑ روپے اور پی سی ون کی لاگت 26 ارب 23 کروڑ روپے کے فرق کی ادائیگی کون کرے گا؟

سینئر حکام نے یہ بھی بتایا کہ وفاقی حکومت کا ماننا ہے کہ مالیاتی تاخیر سندھ حکومت کی جانب سے کی جارہی ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ 2018 میں پی سی ون پر نظر ثانی کی گئی جس میں واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے پاور ہاؤس، پروجیکٹ کالونی، رابطہ سڑکیں، ذخیر آب اور منچھر جھیل سے پائپ لائن کی تعمیر کو شامل کرلیا تھا جس سے اس کی لاگت 46 ارب 73 کروڑ روپے تک پہنچ گئی تھی۔

مزید پڑھیں: خواہش تھی نئی گج ڈیم کی تعمیر کا معاملہ میرے ہوتے ہوئے حل ہو، چیف جسٹس

تاہم پی سی ون کی تجویز کے لیے قوم اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ای این سی ای سی) کو منظوری جمع کروائے ہوئے بھی 9 ماہ گزرچکے ہیں۔

ظفر حسن کا کہنا تھا کہ ای این سی ای سی نے فیصلہ کیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مذکورہ لاگت کو برابری کی بنیاد پر ادا کریں لیکن سندھ حکومت کا اصرار ہے کہ بڑھ جانے والی اضافی لاگت کا پورا بوجھ وفاقی حکومت برداشت کرے۔

اپنا رد عمل دیتے ہوئے سندھ کے خصوصی سیکریٹری برائے آبپاشی اسلم انصاری نے کمیٹی ممبران کو آگاہ کیا کہ صوبائی حکومت اپنے حصے کی ادائیگی کے لیے تیار ہے۔

اسلم انصاری کا کہنا تھا کہ نئی گج ڈیم کی لاگت میں موخر ادائیگی اور اس کی ساخت میں ہونے والے رد و بدل کی وجہ سے تبدیلی کی گئی ہے جس میں صوبائی حکومت نے کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نئی گج ڈیم کی تعمیر میں تاخیر: ’کھانچے مارنے کیلئے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں‘

انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ پی سی ون (لاگت کی پہلی نظر ثانی) کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت کو اس معاملے کو سامنے لانا تھا، تاہم یہ غیر منصفانہ ہے کہ بعد میں سندھ حکومت سے بڑھ جانے والی لاگت کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اپنا موقف سپریم کورٹ میں جمع کروایا جس نے اس معاملے کا نوٹس لیا۔

کمیٹی چیئرمین آغا شاہزیب درانی نے سیکریٹری منصوبہ بندی کو 6 ماہ قبل نئی گج ڈیم کی تعمیر میں تاخیر کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم دینے کے احکامات باور کروائے۔

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے وزارت منصوبہ بندی کو 30 جولائی کو تحقیقاتی رپورٹ کے بارے میں باور کروایا تھا لیکن وزارت سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا، ہم نے وزارت کو رپورٹ ایک ہفتے کے اندر شیئر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

خیال رہے کہ نئی گج ڈیم کی تعمیر کی ابتدائی لاگت 17 ارب روپے تھی تاہم جو بڑھ کر 46 ارب 73 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔


یہ خبر 21 اگست 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں