کچھ دن پہلے میں کارل ساگان کی مشہور کتاب ’کائنات‘ پڑھ رہا تھا۔ اس کتاب میں جب میں نے انسان کے ڈی این اے کے بارے میں پڑھا تو میں پریشان کم اور حیران زیادہ ہوا۔ کیوں؟ وہ اس لیے کہ ہم خود کو جو بڑا سُدھ بُدھ والا سمجھتے ہیں۔ کچھ کتابوں کے مطالعے کے بعد نہ جانے کیا کیا سمجھنے لگتے ہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔

جب ایک نقطے میں ایک کائنات بستی ہے تو پھر اس کائنات کو سمجھنے کے لیے ہزاروں جنم چاہئیں اور ہر جنم کی عمر ہزاروں برس ہونی چاہیے۔ اب چونکہ یہ ممکن نہیں ہے اس لیے اس کائنات تو دُور کی بات رہی ہمیں تو اس دھرتی پر جو ہوکر گزرا ہے اس کو سمجھنے اور سلجھانے میں بھی ایک زمانہ درکار ہے۔

ایک گورکھ دھندا ہے گزرا ہوا وقت جس میں ہزاروں گانٹھیں ہیں اور ہم ان کو سمجھنے، سلجھانے اور سیکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیے: شکریہ مسٹر ایسٹ وِک!

27 ستمبر 1538ء میں یونان کے جنوب مغربی کنارے پر ایک مشہورِ زمانہ جنگ ہوئی تھی، چونکہ اس کنارے پر واقع علاقے کا نام ’پریویزا‘ ہے اس لیے اس جنگ کو (پریویزا) Battle of Preveza کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو وینس، جنیوا اور اسپین کے ’صلیبی اتحاد‘ کی جانب سے لڑی گئی تھی اور سامنے سلطنت عثمانیہ کے جنگجو تھے۔

جنگِ پریویزا
جنگِ پریویزا

29 مئی 1453ء کو 54 دن کے محاصرے کے بعد فتحِ قسطنطنیہ کے پورے 85 برس بعد یہ جنگ ہوئی تھی۔ یہ جنگ خیرالدین بارباروسا کی رہنمائی میں سلطنتِ عثمانیہ نے جیتی تھی۔ اگر ہم اس میں شامل دیگر غیر معمولی جنگجوؤں کی تفصیل میں جائیں تو ان میں سب سے اہم نام آپ کو ’سیدی علی رئیس‘ کا ملے گا۔ وہ ایک بہادر اور ذہین انسان تھے۔ اس جنگ کے 17 برس بعد وہ ہمیں بلوچستان کے ساحل، گجرات، ننگرپارکر، بدین، ٹھٹہ، نصرپور، اُچ اور ملتان میں نظر آتا ہے۔

وہ اس شام ہمایوں بادشاہ کے ساتھ دہلی میں تھے جس دن وہ سیڑھیوں سے گِر کر شدید زخمی ہوئے تھے اور پھر اس جہانِ فانی کو چھوڑا تھا۔ آج ہمارے ہمسفر سیدی علی ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ میلوں کا سفر کرنا ہے۔ چونکہ سیدی علی سندھ کے جنوبی حصے میں ایک بڑے عرصے تک قیام پذیر رہ چکے ہیں اس لیے وہ یقیناً ہمیں ان دنوں کے قدیم راستے اور سیاسی صورتحال سے بھی آگاہ کریں گے۔

مگر مختصر سا ذکر اس وقت کے ان پرتگالیوں کا جو لزبن سے نکل کر گوا تک پہنچے۔

لزبن بندرگاہ میں سمندری جہازوں پر نوکری دینے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا Portuguese India Armadas۔ آرماداس لفظ ’آرمادا‘ کا جمع ہے۔ یہ پرتگالی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ ’جہازوں کی فِلیٹ‘ یعنی ’فلوٹیلا‘ یا ‘مجموعہ‘ کے ہیں۔ چونکہ اس زمانے میں بڑے سفر کے لیے جہاز جَتھوں کی صورت میں سفر کرتے تھے اور موسموں کے اعتبار سے سفر طے کیا جاتا تھا۔

پرتگال سے بیوپار کرنے والے جہاز بندرگاہ سے مئی میں نکل پڑتے تھے کہ اس موسم میں راس اُمید (کیپ آف گُڈ ہوپ) سے گزر کر شمال مشرق سے لگنے والی ہواؤں کے زور سے وہ اٹلانٹک پہنچ کر وہاں لگنے والی ’بیوپاری ہواؤں‘ (Trade Winds) کا فائدہ لے کر اپنی منزلوں کو پہنچ سکیں۔

یہ جتھے کوچن یا گوا میں لنگر انداز ہوتے تھے۔ یہاں سامان اتار کر پھر بحرہ احمر Red Sea اور خلیج فارس کی طرف جاتے یا پھر جاوا، سماترا، سیام (تھائی لینڈ) اور چین کی طرف چلے جاتے تھے۔ وہاں لایا ہوا سامان اتار کر، وہاں سے دوسرا سامان لے کر واپس گوا آتے اور وہاں سے پھر اپنی منزل کی طرف نکل پڑتے۔

امیر البحر سیدی علی رئیس
امیر البحر سیدی علی رئیس

’فرناؤ مینڈیس پنٹو‘ Fernao Mendes Pinto بھی ایسے جتھے کے ساتھ 11 مارچ 1537ء میں لزبن سے نکلے اور 6 ماہ کے بعد 5 ستمبر کو ’دیو‘ (Diu) کی بندرگاہ پر پہنچے تھے۔ اس جزیرائی بندرگاہ پر پنٹو کے پہنچنے سے 2 برس پہلے یعنی 1535ء میں پرتگالی زبردستی قبضہ کرچکے تھے اور کیتھیڈرل کے ساتھ اپنے تحفظ کے لیے قلعہ بھی بناچکے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کئی علاقوں پر سلطنت عثمانیہ کی طاقت کا اثر کسی موسم کی طرح چھایا ہوا تھا اور سلطنت عثمانیہ کا سلطان اور طاقتور حاکم ’سلطان سلیمان اول‘ تھا۔ وہ مغرب میں Suleiman the Magnificent کے نام سے مشہور تھے۔ یہ اس سلطنت کے 10ویں اور طویل ترین حکمرانی (1520ء سے 1566ء) کرنے والے سلطان تھے۔ یہ اسلامی سلطنت تقریباً 6 صدیوں (1299ء سے 1922ء) تک قائم رہی۔

ڈاکٹر محمد عزیز لکھتے ہیں کہ ’خانہ بدوش تُرک قبائل جو پہلے عرب خطوں میں ان کی افواج میں شامل ہوئے اور بعد میں انہی تُرکوں نے سلجوقی ولایتوں کی بنیاد رکھ کر مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کے وسط اناطولیہ کی سرزمین پر ایک نئے تاریخی دور کی ابتدا کی۔ پھر انہی کے بطن سے عثمانی سلطنت کا آغاز ہوا۔ عثمانیوں نے رومیوں اور بازنطینیوں کی جگہ ایک خلا کو پُر کرکے نئی تُرک تہذیب کی بنیاد رکھی۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ’عثمانی تُرک‘ کا یہ نام کسی نسل یا قوم کا نام نہیں بلکہ ان کے پہلے فرمانروا ’عثمان خان‘ سے منسوب ہے۔'

سلطان سلیمان اول کے زمانے میں اس سلطنت کی سرحدیں جنوب مشرق میں یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ایک وسیع علاقے، مغرب میں آبنائے جبرالٹر Strait of Gibraltar، مشرق میں کیسپیئن سی اور Persian Gulf تک، شمال میں آسٹریا کی سرحدوں ’سلواکیا‘ اور ’کریمیا‘ (موجودہ یوکرین) تک اور جنوب میں سوڈان، صومالیہ تک پھیلی ہوئی تھیں۔

مزید پڑھیے: ہخامنشی سلطنت، ہیروڈوٹس اور سندھو گھاٹی۔۔۔

اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ 1308ء میں ’بحریہ مرمرہ (ترکی) میں ’جزیرہ امرالی‘ کی فتح عثمانیوں کی پہلی بحری فتح تھی۔ 1321ء میں پہلی بار اس کے جہاز جنوب مشرق یورپ کے علاقے تھریس میں لنگر انداز ہوئے اور برِاعظم یورپ میں فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔

مینڈیس پنٹو
مینڈیس پنٹو

عثمانی بحریہ نے شمالی افریقہ میں بھی فتوحات کا آغاز کیا اور 1517ء میں الجزائر اور مصر کو سلطنت میں شامل کرلیا اور 1538ء اور 1566ء کے بیچ بحرِ ہند میں گوا کے قریب پُرتگالی جہازوں کا مقابلہ بھی کیا۔ مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ 15ویں اور 16ویں صدی میں پرتگال نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ وہ کسی بھی حالت میں بیوپاری بحری راستے اور بیوپار چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔

انہی دہائیوں میں ہمیں ’دمن‘، ’گوا‘ اور دیگر ہندوستانی بندرگاہوں پر ’فرناؤ مینڈیس پنٹو‘ Fernao Mendes Pinto کا نام بھی سننے کو ملتا ہے جو ایک قابلِ ذکر ایڈمرل تھا۔ یہ دونوں نام یعنی ’سیدی علی رئیس‘ اور ’فرناؤ مینڈیس پنٹو‘، ہمارے سامنے 2 طاقتوں کے مظہر ہیں، کیونکہ 16ویں اور 17ویں صدی میں تجارتی اعتبار سے پرتگالیوں کی سمندر پر بادشاہی تھی۔ یہاں تک کہ بحرِ ہند کو ’پرتگالی سمندر‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ وہ تجارت اور دیگر کی ملکیتوں و زمینوں پر قبضہ کرنے کی خاطر انسانیت کی ساری سرحدیں عبور کرجاتے تھے۔

سلطان سلیمان اول
سلطان سلیمان اول

ہم یہاں فرناؤ مینڈیس پنٹو کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ ایک قابلِ ذکر امیرالبحر ہونے کے ساتھ ایک بیوپاری بھی تھے۔ انہوں نے 16ویں صدی میں ٹھٹہ کے قریب مشہور بندرگاہ ’لاڑی بندر‘ (یا لاہری بندر) پر کھڑے سلطنت عثمانیہ کے چند جہازوں پر حملہ کرکے تباہ کردیا تھا، حملے کے دوران گولا باری سے بندرگاہ کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

اس حملے کے بعد مغل حکومت نے لاہری بندر پر بچاؤ کے لیے توپیں نصب کروائی تھیں۔ اگر آپ پنٹو کی سوانح Pilgrimage کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس زمانے میں سلطنت عثمانیہ نے بحرِ ہند کے کنارے پر موجود ان کی بندرگاہوں پر کتنے حملے کیے تھے مگر پرتگالیوں نے ہندوستان میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرلی تھیں کہ ان کا بال بھی بانکا نہیں ہوا۔

یہ ان دنوں کے حالات تھے جن میں شیرینی کم اور تلخی زیادہ نظر آتی ہے۔ خوف، دہشت اور اکیلے پن کے احساس کے جنگل آپ کو ہر جگہ ملیں گے۔ نہ نیلے سمندروں پر سکون کی کشتیاں چلتی تھیں اور نہ راستے محفوظ تھے۔ ٹکسالوں میں اتنے سکے نہیں ڈھلتے تھے کہ جتنے لوہے کے ہتھیار بنائے جاتے تھے کہ ایک دوسرے کا خون بہایا جائے اور دھان کی فصل کی طرح انسانوں کی گردنیں کاٹی جاسکیں۔

پرتگالی فلیٹ کے خلاف سیدی علی کی بحری مہم کا ایک خاکہ
پرتگالی فلیٹ کے خلاف سیدی علی کی بحری مہم کا ایک خاکہ

سیدی علی ترک 1498ء میں قسطنطنیہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بحریہ کے انجینئر تھے جن کا اثر سیدی علی کی زندگی پر بھی یقیناً پڑا۔ ان کی دلچسپی بحری جہازوں کے علاوہ ریاضی، فلکیات اور جغرافیہ سے بھی تھی، یہی نہیں وہ ایک اچھے شاعر اور مصنف بھی تھے۔ وقت گزرتا گیا اور بحریہ کے ایک اعلیٰ افسر بن گئے پھر انہیں ’رئیس‘ (عثمانی دور میں ’رئیس‘ کیپٹن اور ایڈمرل دونوں عہدوں کے لیے استعمال ہوتا تھا) کے عہدے پر ترقی بھی دی گئی۔

وہ بحریہ روم میں عثمانیہ بحریہ کی ہر بڑی مہم میں شریک رہے۔ ان میں سے ایک مشہور جنگ ’پریویزا‘ کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں۔ 1552ء میں سلطان سلیمان نے سیدی علی رئیس کو بحرہند کے بیڑے کا کمانڈر مقرر کیا، جس کے بعد وہ 7 دسمبر 1553ء کو ’حلب‘ سے روانہ ہوئے اور اس خطے کے اہم مقامات کا دورہ کرنے کے بعد فروری 1554ء میں خلیج فارس کے شہر ’بصرہ‘ پہنچے۔ پھر آبنائے ہرمز کے کناروں کی بندرگاہوں کو دیکھا جہاں پرتگالیوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

بصرہ سے نکلنے کے 40ویں دن، ماہِ رمضان کے 10ویں دن گوا سے آتے ہوئے 25 پُرتگالی جہازوں سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی۔ جس میں طرفین کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اس مڈبھیڑ کے 17ویں دن جب وہ ’مسقط‘ پہنچے تو ایک بار پھر پرتگالیوں سے آمنا سامنا ہوا کیونکہ وہاں پرتگالیوں کی حکومت تھی۔ (1507ء میں مسقط پر پرتگالیوں نے قبضہ کیا تھا جبکہ 1649ء میں امام سلطان بن سیف نے یہ قبضہ ختم کیا)۔

جنگ کے دوران دونوں طرف کے جہازوں کو تیز ہواؤں نے مشرق کی طرف دھکیل دیا۔ اس جنگ میں پرتگالیوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا مگر سمندر کے کنارے پر بسنے والے لوگ عثمانی سلطنت کے دوست نہیں تھے اس لیے سیدی علی کنارے پر نہیں جاسکتے تھے۔ وہ خلیج عمان پہنچے مگر وہاں کے بھی مقامی لوگوں نے انہیں زمین پر قدم رکھنے نہیں دیا۔ یوں پھر وہ ایران سے ہوتے ہوئے بلوچستان کے ساحل ’گوادر‘ پہنچے جہاں کے بلوچوں نے عثمانی بیڑے کو خوش آمدید کہا اور عثمانیوں کی ہر ممکن مدد کا یقین دہانی کرائی۔

سیدی علی نے نقشے میں موجود تقریباً انہی راستوں پر چلتے ہوئے اپنا سفر کیا تھا
سیدی علی نے نقشے میں موجود تقریباً انہی راستوں پر چلتے ہوئے اپنا سفر کیا تھا

سیدی علی تحریر کرتے ہیں کہ، ’موسم سازگار ہوا تو ہم گوادر کی بندرگاہ چھوڑ کر دوبارہ یمن کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہم کئی دن تک سمندر میں موجود تھے پھر ایک دن اچانک مغرب سے ایک طوفان کی ابتدا ہوئی۔ جس کو ’ہاتھیوں کے طوفان‘ کے نام سے ہند سندھ والے یاد کرتے ہیں۔ اس طوفان میں دن اور رات کی تمیز نہیں تھی۔ بس وہ برباد کرتا گیا۔ 10 دن تک طوفان کی یہ بربادی جاری رہی۔ پھر ہمیں ایک بڑی (وہیل) نظر آئی جو کشتی چلانے والوں کے لیے اچھا شگون مانا جاتا ہے، لیکن اچانک ہی پانی کا رنگ سفید ہوگیا۔ یہ دیکھ کر کشتی چلانے والے ماتم کرنے لگے اور کہا کہ ہم بھنوروں میں آگئے ہیں۔ ایسے بھنور ’ابیسنیا‘ یا سندھ کی دیبل والی خلیج میں ہوتے ہیں اور ان سے کوئی قسمت والا ہی بچ سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: بابر کا نابینا بیٹا سندھ میں

اپنے سیدی علی یقیناً قسمت والے ہی تھے کہ وہ گجرات کے پرتگالیوں کے زیرِ قبضہ ’دمن‘ اور دیگر بندرگاہوں سے بچتے بچاتے وہ ’سورت‘ پہنچے۔ سیدی علی یہاں کی مون سُون موسم کا جب ذکر کرتے ہیں تو ان کے لفظوں سے غصہ ابلنے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں کا یہ موسم ایک عذاب سے کم نہیں ہے۔ جس میں آپ کئی کئی دنوں تک نہ سورج دیکھتے ہیں اور نہ ستارے۔ مطلب آپ کمپاس تک استعمال نہیں کرسکتے۔ بس آپ بیکار بیٹھے رہتے ہیں۔‘

سورت میں ان کی آمد سے وہاں کے لوگ بہت خوش ہوئے کہ اب عثمانی جہاز اور فوج آنے سے ان کی پرتگالیوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ گجرات کے سلطانوں کی آپس میں چپقلش کے نتیجے میں پرتگالیوں کو پھلنے پھولنے کا اچھا موقع میسر آیا تھا۔ سیدی علی نے گجرات کے نئے حکمران، سلطان احمد شاہ سوئم کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے جس کی تخت نشینی پر ’ناصرالملک‘ نامی ایک رئیس نے چیلنج کیا تھا۔ اس نے ’سیدی علی‘ کو مارنے کے لیے کئی دیگر کوششوں کے ساتھ کھانے میں زہر تک دینے کی کوشش کی مگر ابھی زندگی سیدی کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ یہاں پرتگالیوں سے مسلسل جھڑپیں ہوتی رہیں مگر جب ناصرالملک جنگ میں مارا گیا تو سلطان احمد کی حکمرانی میں ایک بار پھر سکون لوٹ آیا۔

15 نومبر 1554ء پیر کے دن وہ احمد آباد کے لیے نکل پڑے اور 50 دنوں کے بعد وہاں پہنچے۔ راستے میں وہ جب بندروں کی بہتات اور برگد کے پیڑوں کا پھیلاؤ اور درخت سے نکلتی جڑوں کو دیکھتے ہیں تو بہت حیرانی کا اظہار کرتے ہیں۔ احمد آباد میں وہ سلطان سے ملتے ہیں اور جب اپنی اسناد پیش کرتے ہیں تو ان کی بڑی توقیر کی جاتی ہے اور سندھ کے سفر کے لیے رقم، گھوڑا اور اونٹ دیے جاتے ہیں وہیں پر اسے وہ ’بھٹ‘ قبیلے کے 2 افراد دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس سفر میں رہنمائی کریں۔ سفر شروع ہوا۔ پٹن اور رادھن پور تک بھٹ ان کے ساتھ رہے کیونکہ اگلا پڑاؤ ’ننگرپارکر‘ تھا۔ وہ ننگرپارکر پہنچے تو وہاں کے راجپوتوں نے ان کو بہت پریشان کیا مگر پھر کچھ لین دین کے بعد ان کو جانے دیا۔

ان راستوں پر چلتے ہوئے پنٹو نے اپنا سفر کیا تھا
ان راستوں پر چلتے ہوئے پنٹو نے اپنا سفر کیا تھا

تھر کے مغربی اختتام پر ہم جنوبی سندھ کے مشہور گھاٹ ’ونگو‘ پر کھڑے ہیں۔ یہاں سے ننگرپارکر موجودہ راستوں سے 200 کلومیٹر دُور ہے۔ موجودہ وقت میں تو ونگو کے قدیم گھاٹ پر بس خاک ہی اُڑتی ہے مگر جب سیدی علی یہاں 1554ء میں آئے تھے تو دریائے سندھ کا بہاؤ جس کو ’مہران‘ اور ’پُران‘ کے ناموں سے جانا جاتا تھا وہ اپنے اوج پر تھا۔ کہتے ہیں کہ دریا کا پاٹ اتنا بڑا تھا کہ دوسرا کنارہ نظر نہیں آتا تھا۔ اب تو وہاں ویرانی ہے اور کوئی کنارہ نظر نہیں آتا۔

ہمارے مہمان نے یہاں پرانے اونٹ بیچے اور نئے توانا اونٹ خریدے۔ دریا پار کرکے پھر اپنا سفر ٹھٹہ کی طرف جاری رکھتے ہوئے وہ اس وقت کے بڑے تجارتی مرکز ’جون‘ اور ’فتح باغ‘ آ پہنچے۔ (اگر آپ حیدرآباد سے بدین کی طرف جارہے ہیں تو ماتلی شہر کے جنوب میں جو انصاری شگر مل ہے اس کے مغرب میں آپ کو جون اور فتح باغ کے آثار دیکھنے کو مل جائیں گے)۔

یہ وہ زمانہ تھا جب، شاہ بیگ ارغون کا بیٹا شاہ حسن بیگ بیماری اور حکیموں کے کہنے پر کشتی پر اپنے شب و روز گزار رہے تھے۔ کشتی کبھی ٹھٹہ اور کبھی سیہون تک جا نکلتی۔ مرزا حسن، عیسیٰ ترخان اور بکھر کے سلطان محمود کی جو تکون بنی ہوئی تھی اس میں ایک زمانے سے سیاسی گرمی سردی چل رہی تھی۔ جن دنوں میں سیدی علی یہاں ٹھٹہ پہنچے تھے تب ان کی چپقلش جنگ کی صورت اختیار کرچکی تھی۔

ہمارے مہمان سیدی علی مرزا نے شاہ حسن سے ملاقات بھی کی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’میری آمد پر انہوں نے میرا پرتپاک استقبال کیا، چونکہ ربیع الثانی کے مہینے کا آغاز تھا اس لیے انہوں نے مجھے شاندار کپڑے دیے اور ہمیں خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی فوج کا خطاب دیا اور ساتھ میں لاڑی بندر کی گورنری دینے کی پیشکش بھی کی۔ تاہم میں نے انکار کیا۔ میں نے جب اپنا سفر جاری رکھنے کی اجازت چاہی تو انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ جب تک جنگ کی صورتحال موجود ہے تب تک اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایک ماہ کی جنگ و جدل کے بعد رنجشیں ختم ہوئیں مگر جب مرزا شاہ حسن نے کشتی میں وفات پائی تو ان کی بیوی ماہم پر زہر دینے کا الزام لگا۔ مجھے شاہ حسن کا آدمی سمجھا گیا مگر میں نے بڑی کوششوں کے بعد مرزا عیسیٰ کے بیٹے مرزا صالح کو تحفے وغیرہ دے کر راضی کیا اور مرزا عیسیٰ نے بھی ہماری مدد کی اور ہمیں 7 جہاز دیے جن پر سوار ہوکر ہم بکھر کے لیے روانہ ہوئے۔‘

سیدی نے ٹھٹہ سے بکھر تک کے سفر میں نظر آنے والے مناظر کا کہیں کہیں لیکن بہت ہی مختصر تذکرہ کیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر منظر نگاری کے معاملے میں انہوں نے اس قدر اختصار سے کام کیوں لیا ہے؟

دریائے سندھ سے متعلق فقط اتنا لکھتے ہیں کہ ’دریا میں سفر کرتے مجھے بڑی مچھلیاں دکھیں اور گھڑیال بہت نظر آئے اور کناروں پر شیروں کا شکار بھی کیا جاتا تھا۔‘

سیدی علی بکھر میں سلطان محمود کے پاس ایک ماہ سے زائد عرصے تک رہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے رات خواب میں اپنی والدہ کو دیکھا جو مجھے بُلا رہی تھیں۔ اگلی صبح جب میں نے سلطان محمود کو خواب سنایا تو انہوں نے مجھے دہلی جانے کی اجازت دی اور ساتھ میں ایک خوبصورت گھوڑا، 50 کے قریب اونٹ، ایک چھوٹا سا خیمہ، سفری اخراجات کے لیے رقم، ہمایوں بادشاہ کو میری سفارش کا خط اور اونٹوں کے قافلے کے لیے 250 آدمی دیے۔ ہمارا قافلہ اُچ اور ندی پار کرکے، رمضان کی 15 تاریخ کو ملتان پہنچ گیا۔‘

ملتان کے بعد وہ لاہور پہنچے۔ وہاں بھی سیاسی حالات کی دیگ میں بھاپ بہت اُٹھتی تھی۔ وہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ ’جیسے ہی ہمایوں نے ہماری آمد کی خبر سُنی تو انہوں نے خان خاناں اور دوسرے اعلیٰ افسران، 400 ہاتھیوں اور کچھ ہزار آدمیوں کو ہماری طرف روانہ کیا۔ رات کو ہمارے لیے شاندار ضیافت کا انتظام شاہی مہمان خانے میں کیا گیا تھا۔ میں نے شہنشاہ کو ایک چھوٹا سا تحفہ اور ان کے فتحِ ہند پر 2 غزلوں کو پیش کیا۔ اس موقعے پر میں نے سفر جاری رکھنے کی درخواست دی مگر وہ منظور نہ ہوئی اور حکم دیا گیا کہ ’بارشوں کا موسم قریب ہے اس لیے سڑکیں چلنے کے قابل نہیں ہونگی، لہٰذا جب تک موسم بہتر نہیں ہوجاتا تب تک آپ یہاں رکیں۔‘

ہمایوں سے اکثر ان کے ادبی بحث و مباحثے ہوتے رہتے۔ اتفاق یہ بھی ہوا کہ جس دن ہمایوں کی موت زینے سے پیر پھسلنے سے ہوئی تھی اس دن سیدی علی محل میں ہی تھے اور ہمایوں سے اپنے ملک جانے کے لیے اجازت بھی لے چکے تھے۔

فروری 1556ء میں سیدی علی کابل روانہ ہوئے۔ پھر وہاں سے وہ سمرقند اور بخارا سے ہوتے ہوئے قسطنطنیہ پہنچے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ سیدی علی نے اپنے سلطان سلیمان کو 18 ملکوں کے بادشاہوں کے وہ خطوط پیش کیے جو سلطان کو تحریر کیے گئے تھے۔ سلطان ان سے بہت خوش ہوئے اور ایک اعلیٰ عہدے پر فائز کرکے ان کے لیے ایک بڑی تنخواہ مقرر کردی۔ ساتھ ہی ساتھ گزشتہ 4 سالوں کی تنخواہ بھی سیدی کو ادا کی گئی۔ جنوری 1563ء میں سیدی علی رئیس نے قسطنطنیہ میں اپنی آخری سانسیں لیں۔

مزید پڑھیے: کراچی، فرئیر، سندھی زبان اور برصغیر کی پہلی ڈاک ٹکٹ

کیا اس سفر میں ہم ’مینڈیس پنٹو‘ کو بالکل بھول گئے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ پنٹو 1558ء میں پرتگال لوٹے۔ انہوں نے ایک خط ’سوسائٹی آف جیزز‘ کو لکھا تھا، جو 1555ء میں شائع ہوا تھا، جس کی وجہ سے انہیں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ 1562ء سے 1566ء تک وہ اس انعام کے سلسلہ میں کورٹوں کے چکر کاٹتے رہے۔ جس کے بعد انہیں کچھ رقم ملی اور سیدی علی کی وفات کے تقریباً 20 برس بعد 8 جولائی کو پنٹو نے بھی یہ جہان چھوڑا۔

سیدی علی اور مینڈیس پنٹو، دونوں امیرالبحر تھے اور دونوں لکھاری تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ پنٹو شاعر تھے یا نہیں، مگر سیدی علی اپنے زمانے کے بڑے زبردست شاعر گزرے ہیں۔ اگر آپ ان کی کتاب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ جیسے یہ شاعر نہ ہوتے تو انہیں اپنے ملک لوٹنے کی شاید کبھی اجازت بھی نہ ملتی۔

جہاں جہاں سیدی علی کو مشکل پیش آئی وہاں شاعری نے وہ مشکل آسان کی۔ وہ یقیناً ایک اچھے اور اصول پرست انسان تھے۔ بس آخر تک مجھے علی رئیس سے یہ شکایت رہی کہ دورانِ تحریر وہ منظرناموں کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لائے مگر پھر بھی ہم ان کے شکر گزار ہیں کہ وہ قدیم راستوں، لوگوں اور بادشاہوں کی کئی باتیں ہمیں بتا گئے ہیں۔ اگر ایک تحقیقی نظر سے دیکھیں تو ان تحریروں میں پانے کے لیے بہت کچھ ہے!


حوالہ جات:

۔ ’سلطنت عثمانیہ‘۔ ڈاکٹر محمد عزیز۔جمہوری پبلیکیشنز لاہور

۔The Travels and Adventures of the Turkish Admiral. By: A.Vambery. London 1899

۔ The Voyages and Adventures of Ferdinand Mandez Pinto The Portuguese. By: Henary Kogan, Landon 1663

۔ ’تاریخ گجرات‘۔ شاہ ابوتراب ولی۔ مترجم: شبیہ احمد۔ ہندوستانی پبلشنگ ہاؤس، الہ آباد۔

۔ ’نگری نگری پھرا مسافر‘ ۔ابوبکرشیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

۔ ’عرب و ہند کے تعلقات‘۔ مولانا سید سلیمان ندوی۔ کریم سنز پبلیشرز، کراچی

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Aug 23, 2019 06:49pm
کمال کی تحریر ہے۔ شیخ صاحب کے لیے اگر کہا جائے کہ وہ مدفون خزانوں کو تلاش کر لاتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کوشش جاری رہنی چاہیے ہے۔
Tayab Aug 23, 2019 09:01pm
Bhtreen tahreer
Tayab Aug 23, 2019 09:02pm
Bhtreen tahreer
عرفان مہدی Aug 23, 2019 09:21pm
بہت ہی زبردست تحریر ہے . تاریخ کے بارے میں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے شیخ صاحب کی تحریروں سے . تمام عمدہ . ماشااللہ
fozia Aug 24, 2019 10:58am
شاندار۔بہت ہی دلچسپ تحریر ہے۔پڑھ کر خوشی ہوئی۔شیئر کرنے کا شکریہ۔۔۔
yusuf shaikh Aug 24, 2019 12:29pm
شكر ہے كہ آج بھى آپ كى محنت سے تارىخ كى دلچسپ داستانىں زندہ ہو گئ ہىں۔ كمال كى بات ہى۔ بہت ہى اچھا اور قابل تعرىف۔۔۔۔۔
Tariq Saeed Aug 24, 2019 03:59pm
Sheikh Saheb, Marvelous article as ever.... Appreciated. Regards, Tariq Saeed Qureshi
Ather H. Akbari Aug 24, 2019 07:14pm
Behtareen. Please keep these kinds of historical investigations up. It is also best to provide all sources for reference. Thank you for sharing these historical events
Aug 25, 2019 07:26am
Venice City in Italy Called the arsenal—derived from an Arabic term meaning “house of manufacture”—it was destined to become the most famous and feared military installation in the medieval and early modern world. By 1500 the shipyard/armory was the nerve center of the Venetian state and the largest industrial complex in the world. It produced 300 warships each year.