لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

تنازعات کے دوران اور اس سے پہلے قیامِ امن، مفاہمت اور زخموں کو بھرنے کی بارہا کوششیں کی جاچکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت، یا فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعات جیسی صورتحال پیدا ہوجانے پر سول سوسائٹی اور ان کے ساتھ سرکاری نمائندگان مذاکرات کو فروغ دینے میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔

ایسی کئی مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پیجز موجود ہیں جو بھارتیوں اور پاکستانیوں کو تقسیمِ ہند سے جُڑی کہانیوں یا پھر سابقہ مشرقی پاکستان کی یادوں کو شیئر کرنے لیے مدعو کرتے ہیں۔ اسی طرح یہودیوں اور فلسطینیوں، بوسنیا اور سربین کے گروپس بھی آن لائن دنیا پر موجود ہیں۔

یہ کوئی ثالثی کی کوششیں نہیں بلکہ اپنی کہانیوں اور تجربات کو دیگر لوگوں تک پہنچانے کے لیے فراہم کردہ ورچؤل پلیٹ فارمز ہیں۔ ثالث کے ماہرین بھی گزرے وقتوں میں خونی جنگوں میں ایک دوسرے کے مدِمقابل رہنے والے ملکوں کے لوگوں کو ایک ساتھ اکھٹا کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے بات کرنے اور ان کی بات سننے میں مدد میں فراہم کرتے ہیں۔

افغان جنگ خاتمے کے مراحل میں ہے اور کمزور امن عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ تاہم اب تک سول سوسائٹی کا کردار محدود نظر آتا ہے۔ یمن اور شام میں جنگیں اور اقوام متحدہ سے تصدیق شدہ روہنگیا برادری کی نسل کشی کی شدت میں اگرچہ کچھ کمی تو واقع ہوئی ہے لیکن ان جنگوں اور نسل کشی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ تقریباً تباہ ہوچکے مشرق وسطیٰ کے ملبے پر اسے از سرِ نو تعمیر کرنے کا مرحلہ جلد ہی آجائے گا۔

مقبوضہ کشمیر میں صورتحال سنگین ہے اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ہر سطح پر ہر ممکن کوششیں کرنی ہوں گی۔ مگر حالیہ واقعات کی روشنی میں بدقسمتی سے ایسا ہوتا ناممکن سا نظر آ رہا ہے۔

تنازع کے بعد قیام امن اور اسے برقرار رکھنے کے مراحل اکثر اوقات لوگوں کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ جنگ کی نہج تک پہنچنے میں تو چند برس ہی لگتے ہیں، لیکن امن کی طرف لوٹنا اور پھر اس کی پیوندکاری کرنا دہائیوں پر محیط مرحلہ ہوتا ہے۔

تمام فریقین، بالخصوص حملہ کرنے والے اور حملے سے متاثر ہونے والے، سب کے پاس سنانے اور بتانے کے لیے اپنی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ معاملے کو حل کی طرف لے جانے کے لیے سب کی کہانیوں کو سنا جائے۔

ثالث کار اور امن کے لیے کردار ادا کرنے والوں کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ ایک سب سے اہم آلہ جس کا استعمال ان کے بس میں ہوتا ہے وہ ہے فریقین کی کہانیوں کو ایک دوسرے تک پہنچانے میں سہولت کاری۔ کیونکہ ’وسیع پیمانے پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ثالث کاری کہانی گوئی کے عمل کا ہی نام ہے۔‘

یہ عام رجحان ہے کہ لوگ اکثر اپنی تکلیفوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہیں۔ کہانی گوئی کا عمل درحقیقت اس رویے کو بدلتا ہے اور ہر فریق کو مخصوص واقعات کو مختلف زاویہ نظر سے دیکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

دراصل کہانی گوئی کے اس طریقہ کار کی بنیاد یہ تھیوری یا نظریہ ہے کہ جو واقعہ پیش آیا ہو اس کے بارے میں کسی ایک کا بتایا ہوا احوال کسی دوسرے شخص کی جانب سے بتائے گئے احوال کو رد نہیں کردیتا اور نہ ہی وہ دوسرے سے زیادہ حقیقت پر مبنی ہوجاتا ہے۔

کوئی ایک احوال کبھی بھی مکمل طور پر معروضی (objective) نہیں ہوتا بلکہ وہ احوال بتانے والے کی آرا اور نظریات سے متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ثالث کاری اور قیام امن کی کوششیں اس قدر اہم ہیں۔

کہانی گوئی کے اس طریقہ کار میں ثالث کار کسی تیسرے فریق کی طرح کام کرتا ہے اور ایسے مختلف زاویے رکھنے والی کہانیوں کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے جو صبر اور بالآخر فہم کے ساتھ بتائی اور سنی جاتی ہے۔

ثالث کا ایک نیا طریقہ کار بھی سامنے آیا ہے جسے (Narrative Approach) کا نام دیا جارہا ہے۔ کہانی گوئی کے اس نئے طریقے کی بنیاد ’مجھے اس سے کیا ملے گا؟‘ کی سوچ کے بجائے فریقین کے دکھوں اور غموں کو کم کرنے پر زور دیتا ہے۔ اسی لیے یہ طریقہ ان لوگوں کے لیے زیادہ سودمند ہے جو متاثر ہوئے ہیں، نہ کہ ان سیاستدانوں یا سفارت کاروں کے لیے جو ثالث کاری کے عمل سے کچھ نہ کچھ فوائد سمیٹ لیتے ہیں۔

اس طریقہ کار میں ثالث کار باہمی فہم کو بڑھانے اور سماجی سطح کے تعصبات کم سے کم کرنے کے لیے زور ڈالتے ہیں۔ لوگ آپس میں بات کرتے ہیں اور ثالث کار ہر ایک سے رابطے میں رہتا ہے، یوں ماحول کو مکمل طور پر محفوظ بنائے رکھنے میں مدد بھی ملتی ہے اور معاملات کی گہرائی میں جاکر اسے حل کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہتی ہے۔

فریقین 3 مراحل سے گزرتے ہیں:

  • ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنا،
  • تنازع کی کہانی بتانا، جو کہ یکطرفہ بھی ہوسکتی ہے، اور
  • تیسرا مرحلہ ہے دیگر امکانات کی راہیں نکالنا۔

یہ مراحل اکثر اوقات آگے پیچھے ہوجاتے ہیں۔ وہ ماحول کافی اہم ہوتا ہے جس میں ثالث کاری ہونا ہوتی ہے، اسی طرح اس دوران یہ باتیں بھی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کہ اس میں کون شامل ہے، وہ کون سی بات کہہ رہا ہے اور کس طریقے سے کہہ رہا ہے۔

جیسے جیسے کہانیاں بتائی جانے لگتی ہیں تو ثالث کار فریقین کو دعوت دیتا ہے کہ وہ تنازع کے بارے میں غیر جانبدار ہو کر سوچیں اور اسے تیسرے فریق کے طور پر دیکھیں۔ وہ تمام مسائل اور ظلم کا ایک ساتھ سامنا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تنازع کو ایسے کوئی نام دے دیا جاتا ہے جیسے وہ کوئی زندہ وجود اور اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔

بعدازاں تنازعے کی ایک ایسی مشترکہ کہانی کے لیے اسٹیج سجا دیا جاتا ہے جس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں ہوتی۔ ثالث کار ہر ایک فریق سے سوالات کرتا ہے اور ان کے دیے گئے ایسے بیانات پر مفصل انداز میں تبادلہ خیال کرتا ہے جو جذبات سے سرشار ہوتے ہیں اور اکثر طاقت کی حرکیات (Power of Dynamics) سے متاثر ہوکر دیے جا رہے ہوتے ہیں۔

ایسے متعدد تجربات ہوتے ہیں جن پر اس سے قبل گفتگو ہی نہیں کی گئی ہوتی کیونکہ ان تجربات کو پہلے کے غالب بیانیے میں نمایاں جگہ ہی نہیں دی گئی تھی۔ وہ کہانیاں جو سیاسی، سماجی یا جذباتی زاویہ نظر سے رنگی ہوئی ہیں انہیں اب نئی عینک سے دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ نیا بیانیہ تاحال ثالث کار ٹیموں کی جانب سے ٹریک ون کی سطح پر استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ ثالث کاری کے جذباتی پہلوؤں، جو کہ کہانی گوئی کا خاصہ ہے، کی غیر موجودگی باضابطہ حل کے باوجود طویل المدت تنازعات کو اسی حالت میں قائم رکھنے کی ایک اہم وجہ قرار دی جاسکتی ہے، جس کی مثالیں نادرن آئرلینڈ، قبرص اور جورجیا ہیں۔

قیامِ امن کی خاطر کی جانے والی ثالث کاری میں طریقہ بیانیہ اختیار کرنا اور ثالث کاروں کی صلاحیتوں کو بڑھانا نہایت سود مند ثابت ہوگا۔

یہ مضمون 22 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں