اسلام آباد: خوابوں کو لفظوں کا روپ دینے والے شاعر احمد فراز کو دنیا سے رخصت ہوئے 11 برس بیت گئے لیکن ان کے منفرد اسلوب کی بدولت ان کی شاعری آج بھی مداحوں کے لیے تروتازہ ہے۔

احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا، وہ 12 جنوری 1931ء میں پیدا ہوئے، شاعری کا فن وراثت میں والد سے ملا تھا، اُن کے والد سید محمد شاہ برق کو فارسی کے ممتاز شعراء میں شمار کیا جاتا ہے۔

احمد فراز نے اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے ادبی ذوق کی آبیاری کس طرح ہو رہی تھی، ایک جانب تو وہ اپنی مادری زبان پشتو کے ادب سے واقفیت حاصل کر رہے تھے تو دوسری جانب اُنہیں اردو شعر و ادب سے شناسائی ہوئی، فارسی اور انگریزی نے اُن کے ذوق میں چمک بڑھا دی۔

بات یہی تک محدود نہ رہی، حروف کی تفہیم اُنہیں لکھنے کی جانب لے آئی، ابتدائی طور پر اُن کی وابستگی ریڈیو پاکستان، پشاور مرکز سے ہوئی، جہاں یہ مسودہ نگار تھے، یہی وہ پگڈنڈی تھی، جس کے ذریعے، اُنہیں شعریات کی منزل کو جانے والا راستہ دریافت ہوا۔

مزید پڑھیں: احمد فراز: رومان کی علامت، مزاحمت کا استعارہ

اِس مسافت میں وہ جامعہ پشاور سے بطور لیکچرار جُڑے، پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر ہوئے، اکادمی ادبیات، اسلام آباد کے اولین ڈائریکٹر جنرل ہونے کے بعد، لوک ورثہ اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

احمد فراز کے 14 مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شبِّ خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ شامل ہیں، اس کے علاوپ اُن کے کلام کی کلیات ’شہرِ سخن آراستہ ہے‘ بھی مداحوں میں مقبول ہے۔

احمد فراز، جنہیں کبھی بچوں کا شاعر تو کبھی حسن و عشق کا مداح سرا کہا گیا، کہیں انقلاب کا منتظر تو کبھی ماضی کا نوحہ گر، کہیں انا سے اکڑا سر پھرا عاشق تو کہیں سب کچھ بھلا کر دوستی کے لیے پہل کرتا شاعر کہا گیا، انہیں آج دنیا کو چھوڑے 11 سال بِیت گئے مگر اُردو ادب میں وہ زندہ اور محفلوں میں اُن کا تذکرہ اب بھی جاری ہے۔

فراز نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ 'سلسلے توڑگیا وہ سبھی جاتے جاتے' مگر جس طرح ان کا تذکرہ ادب کی محفلوں میں ہے، اسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا کہ سلسلہ ٹوٹا نہیں تجھ سے تعلق کا فراز۔

1960 کی دہائی میں پہلے مجموعہِ شاعری سے اُردو ادب کے اُفق پر جگمگانے والا یہ ستارہ 11 برس پہلے آج ہی کے دن فلکِ ادب پر ٹوٹا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ ٹوٹے تارے کی روشن کرنیں اب بھی باقی ہیں۔

حسن و عشق کے شاعر فراز کی شاعری کو جہاں ہر عمر کے شائقینِ ادب میں بے پناہ مقبولیت ملی وہیں برِصغیر کے مشہور غزل سنانے والوں نے ان کی غزلیں سناکر عام سامعین میں بھی مقبولیت حاصل کی۔

شہنشاہ موسیقی مرحوم مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا مگر جب انہوں نے 'رنجش ہی سہی دل ہی دکھانا کے لیے آ' پیش کی تو پہلا مصرعہ بہت جلد عوامی حلقوں میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا، جس کی شہرت آج بھی برقرار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سلسلہ ٹوٹا نہیں تجھ سے تعلق کا فراز

پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی احمد فراز کی شاعری کو شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ بھارتی موسیقی کی سدا بہار آواز لتامنگیشکر بھی ان کی کئی غزلیں اور گیت گاچکی ہیں، فراز کی ایک غزل 'آنکھ سے دور نہ ہو، دل سے اترجائے گا' جب لتا جی نے گائی تو اسے بہت پذیرائی ملی، ان کے علاوہ جگجیت نے بھی فراز کی غزلیں گائی ہیں۔

پاکستان کی ملکہ ترنم میڈم نورجہاں نے ان کی کئی غزلوں کو اپنی آواز عطا کی اور یوں فراز کی غزلیں ان لوگوں تک بھی پہنچ پائیں جو پڑھنا تو نہیں جانتے تھے مگر لازوال آوازوں کی سنگت سے وہ بھی احمد فراز کے مداح ہوئے۔

میڈم نور جہاں کی گائی فراز کی غزل 'سلسلے توڑگیا وہ سبھی جاتے جاتے' اس خطے کے شائقینِ غزل میں بہت مقبول غزل خیال کی جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں