امریکی قانون سازوں کا کشمیر میں گرفتاریوں، حراستی مراکز پر اظہار تشویش

اپ ڈیٹ 26 اگست 2019
شدید انسانی بحران کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کی حالت زار پر دھیان دیں —تصویر: رائٹرز
شدید انسانی بحران کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کی حالت زار پر دھیان دیں —تصویر: رائٹرز

واشنگٹن: ریاست آسام اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر حراستی مراکز قائم کرنے کے منصوبوں نے امریکی ہاؤس آف ریپرزینٹیٹو (کانگریس) کی واحد بھارتی قانون ساز پرامیلا جیاپال کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا۔

سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بھارتی حکومت کی جانب سے 2 ہزار کشمیریوں کو حراست میں لیے جانے کی خبروں سے سخت پریشان ہوں جبکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حکومت کا مسلمانوں کے لیے بڑے پیمانے پر حراستی مراکز بنانے کا منصوبہ ہے‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی قسم کی ایک ٹوئٹ میں ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شف نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے لکھا تھا کہ ’کشمیر میں صورتحال خاصی سنگین ہے جہاں ہزاروں شہری دنیا سے کٹ کر اور کسی الزام کے بغیر قید ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’مقبوضہ کشمیر قبرستان کی مانند خاموش ہے‘

جیا پال نے اپنے پیغام میں نئی دہلی کو بآور کروایا کہ ’اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے خوف اور حد سے زیادہ حب الوطنی بھارت میں بھی اسی طرح نقصان دہ ہے جس طرح امریکا میں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جمہوریت میں شفافیت، کارروائی اور آزادی اظہار رائے درکار ہوتی ہے، چاہے صورتحال کتنی ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو یہ چیزیں انتہائی اہم ہیں۔

اس ضمن میں امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے بھی ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جموں اور کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بھارتی فیصلے پر بات کرنی چاہیے، اس سے قبل کہ پاکستان کے ساتھ اس کی کشیدگی میں اضافہ ہو‘۔

دوسری جانب امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ ’بھارت کو کشمیر کو حراستی مرکز میں تبدیل نہیں کرنے دیں گے‘۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ شدید انسانی بحران کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کی حالت زار پر دھیان دیں۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا خطرہ ہے، عالمی ادارے کی وارننگ

دوسری جانب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے حقائق جانچنے سے متعلق اپنی رپورٹ میں کشمیر میں صورتحال معمول پر آنے کے بھارتی حکومت کے دعوے کے جواب میں لکھا کہ ’حتیٰ کہ چھرے اور گولیاں بھی ان کشمیری عوام کو زیر کرنے میں ناکام رہے جو پوری وادی میں بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں‘۔

بھارتی حکومت کے دعوؤں کی جانچ کرنے کے لیے امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں ویڈیو اور عینی شاہدین کے بیانات بھی شامل کیے، جو مقبوضہ وادی کی ایک الگ ہی کہانی بیان کررہے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کی جاری کردہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ وادی کے تمام علاقوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں جبکہ کچھ ویڈیوز میں بھارتی فورسز کو کشمیری مظاہرین پر گولیاں اور پیلٹ گن سے فائر کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیر میں مکمل طور پر مواصلاتی بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے لیکن کچھ میڈیا ادارے بھارتی یومِ آزادی سے شروع ہونے والے احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز بھیجنے میں کامیاب ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں رابطوں پر پابندی: غلط معلومات کا نیا محاذ کھل گیا

ان ویڈیوز نے بھارتی حکام کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ انہوں نے مظاہرین پر پیلٹ گنز اور گولیاں برسائیں‘۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز سال 2010 سے کشمیریوں کے خلاف شاٹ گنز اور دھاتی چھروں کو استعمال کررہی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ شاٹ گنز سیکڑوں دھاتی چھرے فائر کرتی ہیں جو کافی دور تک پھیلتے ہیں جس کے نتیجے میں جولائی 2016 سے لے کر اب تک سیکڑوں کشمیری بینائی سے محروم جبکہ کم از کم 14 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور اس ہتھیار کے اثرات آئندہ آنے والے سالوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں