کچرا کم کرنے اور اسے دوبارہ استعمال کرنے کے چند مفید مشورے

اپ ڈیٹ 29 اگست 2019
صرف کراچی میں یومیہ 10 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے—زوفین ابراہیم / ڈان
صرف کراچی میں یومیہ 10 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے—زوفین ابراہیم / ڈان

پچھلی کئی دہائیوں سے کوڑا کرکٹ کی پیداوار دنیا بھر کے ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کے لیے بنیادی معاشرتی مسئلہ بن چکی ہے کیونکہ یہ ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا باعث بن رہی ہے۔

پاکستان میں حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال ساڑھے 4 کروڑ ٹن کے حساب سے کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے اور ہر سال کچرے کی پیداور میں تقریبا 2 فیصد کے تناسب سے اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کوڑا کرکٹ کی پیداوار میٹرو پولیٹن یعنی بڑے شہروں میں زیادہ ہے، ایسے شہروں میں کراچی، لاہور، کوئٹہ، فیصل آباد اور پشاور سمیت دیگر گنجان آبادی والے شہر شامل ہیں۔

اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں ہر سال 9 ہزار 900 ٹن، لاہور میں 7 ہزار 510 ٹن، راولپنڈی میں 4 ہزار 400 ٹن، پشاور میں 2 ہزار ٹن جب کہ کوئٹہ میں 700 ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے، پاکستان میں کوڑا کرکٹ بڑھنے کی وجہ ڈسپوزیبل اور پلاسٹک بیگز کا بے دریغ استعمال اور اسی حوالے سے لوگوں کی جانب سے کی جانے والی لاپرواہی و غفلت ہے۔

عام مشاہدے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ چلتے ہوئے یا گاڑی میں سفر کے دوران سڑکوں پر کوڑا کرکٹ پھینک دیتے ہیں، اگر ڈرم یا ڈسٹ بین موجود بھی ہوں تب بھی لوگ کچرے کو سڑکوں پر پھینکنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جو تہذیب و اقدار اور اخلاقیات پر ایک کاری ضرب ہونے کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے لیے بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔

پاکستان میں کوڑا کرکٹ کو دوبارہ بروئے کار نہیں لایا جاتا یا لوگ اس کو دوبارہ استعمال کے عمل سے ہی نا واقف ہیں مگر مغربی ممالک میں اگر کوڑا کرکٹ کے مسئلے پر تجزیہ دیکھا جائے تو ان ممالک نے کوڑا کرکٹ کی مقدار میں کمی سمیت اس کو دوبارہ استعمال میں لانے جیسے انقلابی قدم بھی اٹھائے ہیں۔

پاکستان کا شمار بہت زیادہ کچرا پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے —فائل فوٹو: ڈان
پاکستان کا شمار بہت زیادہ کچرا پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے —فائل فوٹو: ڈان

اس کے علاوہ انہوں نے ہر گلی، محلے و مالز اور تمام پبلک مقامات میں مختلف اقسام و رنگوں کے 4 سے 6 ڈرم و ڈسٹ بن الگ الگ قسم کے کوڑا کرکٹ کی اشیا پھینکنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں، اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ استعمال کی ہوئی چیزوں یا کچرے کو درست انداز میں درست جگہ پر رکھنے سے بھی واقف ہیں۔

مغربی ممالک میں سبزیوں کے چھلکے پھینکنے کے لیے الگ ڈرم اور دھات و شیشے کی ٹوٹی اشیا کو الگ ڈرم میں پھینکا جاتا ہے، اس عمل کے ذریعے سے کوڑا کرکٹ کو دوبارہ بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر روزمرہ کی بنیاد پر جمع ہونے والی سبزیوں کے چھلکوں کو فصلوں میں کھاد کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کب کچرے سے پاک ہوگا؟ کوئی ڈیڈ لائن نہیں

پاکستان میں کوڑا کرکٹ کو دوبارہ استعمال میں لاکر معیشت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، 2 سال قبل قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات نے قدرت کے تحفظ کے حوالے سے ایک مطالعاتی منصوبے پر کام کیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ لوگ جو کوڑا کرکٹ کو جمع کر کے بیچتے ہیں یہ ان لوگوں کا بہترین ذریعہ معاش ہے۔

مطالعے میں 55 فیصد جواب دہندگان کے مطابق کچرے کو فروخت کرنے والے لوگ 10 ہزار سے 25 ہزار ماہانہ کما لیتے ہیں، یہ لوگ ہر قسم کا کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہیں جو ان کے لیے ایک قسم کا روزگار ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں'' کوڑے والے'' یا اس سے ملتے جلتے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔

مغربی ممالک میں ہر طرح کے کچرے کے لیے الگ ڈسٹ بن ہوتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک
مغربی ممالک میں ہر طرح کے کچرے کے لیے الگ ڈسٹ بن ہوتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

مطالعے کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آئی کہ کباڑ جمع کرنے والوں کی کمائی ہر ماہ 2 سے 3 لاکھ کے درمیان ہو جاتی ہے، ایسے لوگ ملکی معیشت میں 2 طرح سے حصہ ڈال رہے ہیں، پہلا یوں کہ یہ لوگ معاش کے لیے رقم کما رہے ہیں دوسرا ان کا ماحول کے تحفظ میں بڑا ہاتھ ہے۔

مطالعے کے مطابق ان لوگوں کو کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کے دوران سہولیات میں قلت کی وجہ سے صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حکومت کو چاہیے کے ان لوگوں کو کوڑا کرکٹ جمع کرنے کے لیے وسائل فراہم کرے، جیسا کہ ان کو یونیفارم فراہم کرنے چاہیے، اس کے علاوہ ماسک و دستانے فراہم کرنے سے وہ بہت سی ناگہانی بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھ سکیں گے۔

ایسے افراد کی باقاعدہ تربیت کی جانی چاہیے، ان کے لیے تربیتی کیمپ کا انعقاد ہونا چاہیے کیونکہ کوڑا کرکٹ میں موجود اشیا جیسے کہ کھانے پینے کے خراب و گندگی سے بھرپور مواد کو ان کی جانب سے استعمال کیے جانے سے ان میں مختلف امراض پھیلتے ہیں جو صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں.

مزید پڑھیں: 'وفاقی حکومت نے کراچی کو کچرے سے پاک کرنے کا بیڑا اٹھا لیا'

حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی لگائے، جیسے کہ اسلام آباد میں ان پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی لگائی جو ایک اچھا اقدام ہے اسی طرح سے اس کا اطلاق پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی ہونا چاہیے، اس کے ساتھ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر جگہ کوڑا کرکٹ کی اشیا کو دوبارہ استعمال میں لانے کے لیے مختلف ڈرم و ڈسٹ بن لگائے تاکہ ضائع شدہ اشیا کا دوبارہ استعمال آسان ہو سکے۔

مغربی ممالک میں کچرا چننے والے لوگوں کو تربیت سمیت آلات بھی فراہم کیے جاتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک
مغربی ممالک میں کچرا چننے والے لوگوں کو تربیت سمیت آلات بھی فراہم کیے جاتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

دریں اثناء حکومت کو چاہیے کے کوڑا کرکٹ کی کم سے کم پیداوار اور اس کے دوبارہ استعمال کے حوالے سے عوام الناس میں آگاہی و بیداری پیدا کرنے کے لیے منصوبوں کا آغاز کرے کیونکہ کوڑا کرکٹ کا مناسب طریقے سے استعمال اور تصرف ایک مثبت قدم ہوگا۔

محکمہ بلدیات کو چاہیے کہ اس مسئلے پر سوچے اور سخت پالیسی بنائے. شہروں میں ایک میونسپلٹی و میونسپل انتظامیہ ہوتی ہے جو کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور اسے درست سائنسی انداز میں ٹھکانے لگانے جیسے کام سر انجام دیتی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ لوکل انتظامیہ یعنی میونسپلٹی و میونسپل کو کچرے پر قابو پانے کے لیے فعال ہونے کے لیے اکساتی رہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کا کوڑا کرکٹ

لوگوں میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ آبادیوں میں کوڑا کرکٹ ماحول کو بہت متاثر کرتا ہے، اس کے علاوہ لوگوں کی جانب سے نکاسی آب کے نالوں، سمندر، دریا اور ڈیم وغیرہ میں کچرے پھینکے جانے سے بھی نہ صرف ماحول کے حوالے سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ کئی بڑے صحت کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں، مثال کے طور پر اسلام آباد کے سملی ڈیم اور راول ڈیم میں پھینکا گیا کوڑا کرکٹ پینے والے پانی کو تو زیادہ متاثر کرتا ہی ہے اس کے علاوہ وہاں پائی جانے والی آبی حیات کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔

کوڑا کرکٹ کو پھینکتے وقت ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس کو دوبارہ استعمال میں نہیں لایا جا سکتا جو غلط تصور ہے اور اس خیال کو بدلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہماری جانب سے بھاری مقدار میں پیدا کیے جانے والے کچرے سے انسانوں سمیت آبی حیات، جانور و قدرتی ماحول بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور ان کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

یہ ہی بہتر وقت ہے کہ حکومت کو کوڑا کرکٹ کی روک تھام کے لیے مناسب انتظامات کرنے ہوں گے تاکہ آنے والی نسل کا تحفظ ممکن ہو سکے۔


لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی آف اسلام آباد کے شعبہ سماجیات کے چیئرمین ہیں، وہ پاکستان میں سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں، جہاں وہ سماجی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں، وہیں وہ ان کے حل کی تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔

ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں