لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

یوں لگتا ہے جیسے موجودہ سول ملٹری اشرافیہ کے چند اہم ممبران فیلڈ مارشل ایوب خان کی نام نہاد ترقی کی دہائی (68-1958) کو بڑے ہی سادہ و سطحی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور بڑھا چڑھا کر 1960 کی دہائی کو ملک کا سنہری قرار دیتے ہیں۔

میں نے 1964ء میں اسکول جانا شروع کیا اور میری ابتدائی یادیں بھی اسی دور سے منسلک ہیں، کہ جب 1965 کی جنگ کا طبل بھی بجا تھا۔ اگر موجودہ کراچی اور 1960 کی دہائی کے وسط کا موازنہ کریں تو میں اتنا تو ضرور کہوں گا کہ ان پرانے وقتوں کی میری اپنی یادیں کافی خوشگوار ہیں۔

ہم 262-بی انگل روڈ (جو اس وقت ایم آر کیانی روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے) پر رہا کرتے تھے، ہمارا گھر کراچی پریس کلب کے قریب اور ٹھیک اس جگہ کے سامنے تھا جہاں بعدازاں کوسٹ گارڈ میس کو تعمیر کیا گیا۔

ان دنوں میرے پاس گھڑی نہیں ہوا کرتی تھی، لہٰذا ایک سے دوسری جگہ جانے کا وقت نوٹ نہیں کر پاتا تھا، مگر پھر بھی میرے اندازے کے مطابق ہمیں پاکستان کوارٹرز میں واقع ’بڑی پھپو‘ کے جھونپڑی کے ڈیزائن والے گھر پہنچنے میں 7 سے 8 منٹ لگتے تھے، جبکہ پاپوش نگر میں موجود ’چھوٹی پھپو‘ کے فلیٹ تک ہم زیادہ سے زیادہ 15 منٹ میں پہنچ جاتے تھے۔ یعنی اپنے والد کی بہنوں کے گھر جانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔

اگر آج اس سفر کا تصور کیا جائے تو آپ کے ذہن میں بے ہنگم و بے تحاشا ٹریفک، آلودگی اور سڑک پر گھنٹوں چلتے رہنے کے خیالات امڈ آئیں گے۔ ہمارے انگل روڈ والے گھر سے میرے بڑے بہن بھائی پیدل ہی فلم دیکھنے کیپیٹول، ریکس اور ریو سینما جایا کرتے تھے، یا پھر شام کے وقت سافٹ ڈرنکس پینے یا آئس کریم کھانے کے لیے گورنر ہاؤس کے سامنے میوزیکل فاؤنٹین کے ساتھ ٹاپسی اسنیک بار کا رخ کرتے، وہاں پہنچنے میں بھی 5 منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔

چونکہ ہمارا گھر ایلفنسٹن اسٹریٹ (زیب النسا اسٹریٹ) اور بوہری بازار کے قریب تھا اس لیے میری والدہ دوپہر کے کھانے کے وقت ہمیشہ اضافی لوگوں کے کھانے کا بندوبست کیا کرتی تھیں، کیونکہ اکثر جیسے ہی ہم کھانے بیٹھتے تو دوستوں یا عزیزوں میں سے کوئی نہ کوئی بازار سے خریدے ہوئے سامان کے ساتھ گھر آتا اور کھانا کھانے کی فرمائش کرتا۔

اعترافاً کہتا ہوں کہ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے گھر کے قریب کئی عمارتوں کے باہر متحرک نیون لائٹنگ سے جگماتے ڈانسنگ وومین کی علامات نظر آتی تھیں، اگرچہ کم سنی کے باعث وہ سمجھ ہی نہیں آتی تھیں، مگر ہاں بیلی ڈانسرز اور اسٹیج پرفامنس کی تصاویر سے مزین سائن بورڈز اور بینرز بڑے ہی واضح ہوا کرتے تھے۔

ان دنوں نائٹ کلبز کی بہتات تھی۔ کراچی کلب کے سامنے لیڈو نامی کلب تھا، ایک کلب پیلس ہوٹل میں تھا جس کی خوبصورت عمارت اور گنبد کو شیریٹن ہوٹل کی راہ ہموار کرنے کے لیے گرا دیا گیا تھا۔ ایک کلب سابقہ انٹرکونٹینینٹل ہوٹل سے پی آئی ڈی سی برج کے پار امپیرئل ہوٹل میں ہوتا تھا، جبکہ ایک سب سے مشہور کلب سینٹرل ہوٹل بلڈنگ میں ہوا کرتا تھا۔

کبھی کبھار ہماری شام کی تفریحی سرگرمیوں میں کینٹ اسٹیشن سے صدر جانے والے روڈ کی سیر بھی شامل ہوتی تھی، وہاں سے ہم اس جگہ پہنچتے جہاں دودھ کی متعدد دکانیں موجود تھیں، تاکہ ہم لمبے گلاس میں ملنے والے بادام اور پستے کا دودھ پی سکیں۔ کئی بار ان دکانوں کے سامنے کافی ہنگامہ بھی دکھائی دیتا کہ کم عمری میں پینے کا شوق پالنے والے وہاں موجود کسی نہ کسی بار کا ماحول مسرور کردیتے تھے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ انہیں 1960 کی دہائی میں گزرے بچپن کا وہ وقت یاد ہے جب سینما گھر کے ساتھ ساتھ مساجد بھی نمازیوں سے بھری ہوتی تھیں۔ ہمارے گھر کے آس پاس علاقوں کا رخ کیا جاتا تو وہاں نائٹ کلبز میں بھی زبردست رش دیکھنے کو ملتا تھا۔

اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو 1960 کی دہائی میں معیشت بہتری کی طرف گامزن دکھائی دیتی ہے۔ تو کیا ان وقتوں میں سب کچھ ٹھیک تھا، چلیے اب 6 سالہ بچے کی ذہنی وسعت کے بجائے ان وقتوں کے حالات کا ذرا گہرائی سے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگرچہ ہمارے والدین نے ہمیں بُری خبروں سے محفوظ رکھا تھا لیکن مجھے وہ دن یاد ہے جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے دھاندلی زدہ الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی اور خود کو اگلی مدت کے لیے باضابطہ صدر قرار دیا تھا اور فوجی حکمران کے بیٹے نے اُس شہرِ کراچی میں فتح کی خوشی میں ریلی نکالی تھی جس شہر نے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی۔

گجرنالہ، ناظم آباد اور اس کے آس پاس کے مقامات میں گوہر ایوب خان کی زیرِ صدارت نکالے جانے والے وکٹری مارچ میں جو کچھ ہوا اسے جب یاد کرتا ہوں تو ہلاک شدگان اور زخمیوں اور جلی ہوئی جھونپڑیوں کی اردو اخبارات میں شائع ہونے والی تصاویر ذہن میں تیر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میرے والدین انکل آفاق (ریٹائرڈ کرنل آفاق حسین) کی عیادت کے لیے ہسپتال گئے تھے جن پر فتح پانے والے حملہ آواروں نے اس وقت چاقو سے حملہ کیا تھا جب انہوں نے مارچ کرنے والوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

یوں سمجھیں کہ یہی وہ وقت تھا جب سندھ کے اندر لسانی اختلافات کی ابتدا ہوئی، اس کے علاوہ تھیڑی حسن آباد (سندھ کے ضلع خیرپور کے قریب علاقے) میں 1963 کے شدید فرقہ وارانہ حملے بھی اسی دہائی میں ہوئے۔ مجلس سے لوٹنے والے شیعہ عزاداروں کو دہشتگردوں نے فائرنگ کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

مجھے جنگ کا وقت بھی یاد ہے، انہی دنوں ہمیں ایک بار اپنی کے جی ون کلاس فوری طور پر چھوڑ جانے کے لیے کہا گیا تاکہ ہم باہر کھدی ہوئی خندق تک پہنچ سکیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے والد جو ایک فوجی افسر تھے، وہ ان 17 دنوں تک جاری رہنے والی جنگ اور اس کے بعد بھی خفیہ مشنز پر جایا کرتے تھے۔

بہت عرصے بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ مکمل طور پر خالی پی آئی اے بوئنگ طیاے کی پرواز کے ذریعے ملک سے باہر ہر اس جگہ جاتے تھے جہاں سے پی اے ایف اور نیوی کے اثاثوں سمیت پاکستان کی جنگی ساز و سامان کے لیے گولہ بارود کا انتظام ہوسکتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ 1965 کی جنگ کے دوران پاکستان کے اثاثے نہایت ہی کم تھے۔

اس جنگ کے بارے میں دیگر کے علاوہ مرحوم مارشل نور خان اور اصغر خان جیسے اس جنگ کے ہیروز ایسی بہت سی باتیں لکھ /بتا چکے ہیں جن پر میں تبصرہ کرسکتا ہوں۔ لیکن ایک بچے کے طور پر میں بے حد خوش تھا کہ ہم وہ جنگ فیصلہ کن انداز میں جیت چکے ہیں۔ پھر کئی برسوں بعد لوگوں کو آپریشن گرینڈ سلیم کے بارے میں سننے کو ملا۔

1960 کی دہائی کرونی سرمایہ داری کے نظام کا بھی دور تھا جو امریکا سے آنے والے ڈھیروں ڈالروں کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا، ڈالروں کی آمد کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے سرد جنگ کے مختصر کے عرصے کے دوران ایک سیٹلائٹ ریاست بننے پر حامی بھری تھی۔ آپ کو بڑا بیر (پشاور) سے سویت یونین کی حدود میں داخل ہونے والے یو 2 طیارے کو تباہ کیے جانے کا واقعہ تو یاد ہوگیا۔

ملک میں دولت تو بہت آئی لیکن چند ہاتھوں میں ہی رہی، مزید وضاحت کے ساتھ کہیں تو یہ دولت 22 خاندانوں تک ہی محدود رہی۔ دولت کی مساوی تقسیم کی ایک بار بھی کوشش نہیں کی گئی، جس کے باعث حالات مزید بگاڑ کی طرف گئے۔ اسی طرح مسلمان قوم کی بنگالی اکثریت کے ساتھ امتیازی سلوک نے ایک بڑے سانحے کو دعوت دی۔

حال ہی میں میری نظر سے محترمہ فاطمہ جناح کی چند تصاویر گزریں جن میں وہ سابقہ مشرقی پاکستان میں اپنی انتخابی مہم میں مصروف نظر آئیں، اور آپ جانتے ہیں کہ ان کے برابر کون سی شخصیت کھڑی تھی؟ شیخ مجیب الرحٰمن۔ کیا (بنیادی جمہوریت کے ممبران کے ذریعے) منصفانہ صدارتی انتخابات کا انعقاد تاریخ کا رخ بدل سکتا تھا؟

ہم 1960 کی دہائی کو چاہے کتنے ہی اچھے لفظوں میں یاد کیوں نہ کریں لیکن ہمیں یہ بالکل بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسی عرصے میں 1971 کے سانحے کے زیادہ تر بیج بوئے گئے تھے، اور یہی وہ وقت تھا جب پاکستان میں سویلین بالا دستی کو ایک حد تک باقاعدہ کنارے لگا دیا تھا۔

یہ مضمون 31 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Sep 01, 2019 10:52pm
عباس ناصر صاحب، آپ نے بہت سچی باتیں کی ہیں۔ میں ایک دو باتیں اس سلسلے میں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ پاکستان میں نہ صرف سرد جنگ کچھ پیسہ لائی تھی بلکہ جنگ کوریا کے امریکی ڈالر بھی آرہے تھے، گو جنگ کوریا ۵۰ کی دہائی کے آخر میں ختم ہوگئی تھی۔ دوسرے، ایوب خان کی ایک بہت بڑی حماقت اسلام آباد کا بنانا تھا۔ ایک قوم جس کے تجارت اور صنعت کے شعبے ابتر ہوں وہ قوم کیسے ایک شہر بسانے اور بڑی بڑی عمارات بنانے کا خیال دل میں بھی لا سکتی ہے۔ اسلام آباد بنگالیوں کی ناراضگی کی وجہ بھی تھا۔ ایک تیسری بات یہ کہ شیخ مجیب جو تھے وہ محترمہ جناح کے پولیٹیکل ایجنٹ تھے۔ بنگالیوں نے بھر پور انداز میں محترمہ کو ووٹ دیے تھے اور انہیں جتوا ہی دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کے ایوب نے مجیب صاحب کو سازشی قرار دے کر ان پر مقدمہ چلا رکھا تھا۔
شاہد جنجوعہ Sep 01, 2019 11:52pm
میں کچھ تنقید بلکہ اپنی رائے دینے کی جسارت کرتا ہوں، اس مضمون میں بہت سی غیر ضروری اور بنیادی موضوع سے لا تعلق انفارمیشن ہیں۔ اصل موضوع اور اقتصادی ترقی پر بہت مختصر انفارمیشن دی گئیں۔ میرے علم میں بالکل اضافہ نا ہو سکا۔ یہ محض میری رائے، اس سے اختلاف آپ کا حق ہے