جج ارشد ملک ویڈیو کیس: مرکزی ملزم ناصر جنجوعہ سمیت 3 ملزمان گرفتار

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2019
جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف کیس کا فیصلہ سنایا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف کیس کا فیصلہ سنایا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس میں مرکزی ملزم ناصر جنجوعہ سمیت 3 افراد کو ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست خارج ہونے کے بعد گرفتار کرلیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سائبر کرائم عدالت میں جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کے مرکزی ملزم ناصر جنجوعہ اور خرم یوسف کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

سائبر کرائم عدالت کے جج طاہر محمود نے کیس کی سماعت کی، اس دوران مرکزی ملزم ناصر جنجوعہ اور خرم یوسف جبکہ ملزم کی جانب سے وکیل راجا رضوان عباسی اور ایف آئی اے پراسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت وکیل صفائی نے بتایا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق ناصر بٹ نے ویڈیو ریکارڈ کروائیں اور ویڈیو ریکارڈنگ کا منصوبہ انہوں نے خود ہی بنایا تھا۔

مزید پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو کیس: ایف آئی اے کو 3 ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم

انہوں نے بتایا کہ میرے موکل کا ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں، اس پر جج نے استفسار کیا کہ کیا اس رپورٹ میں کہی بھی ناصر جنجوعہ کا نام لیا گیا؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ رپورٹ میں کہی بھی ایسا نہیں لکھا جس سے میرے موکل پر کوئی الزام لگایا گیا ہو۔

وکیل صفائی نے بتایا کہ میرے موکل کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے سوائے اس کے کہ درخواست گزار نے انہیں نامزد کیا ہے، اگر موکل کے ضمانتی مچلکے جمع ہو جاتے ہیں تو وہ تحقیقات میں شامل ہو کر خود کو بے گناہ ثابت کرتے۔

دوران سماعت راجا رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا گیا کہ جج ارشد ملک کی جو ویڈیو بنائی گئی وہ جاتی امرا اور مختلف جگہوں پر بنائی گئی تھی، ویڈیو پبلک کرنے کا جو الزام لگایا گیا، اس میں میرے موکل شامل نہیں، ویڈیو پبلک کرنے کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی اس میں میرے موکل کا نام شامل نہیں۔

وکیل راجا رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں پریس کانفرنس میں شریک افراد کا نام شامل ہے، ساتھ ہی انہوں نے اپنے موکل ملزم خرم یوسف کے بارے میں بتایا کہ وہ 66 سال کے ہیں اور بیمار رہتے ہیں، وہ عارضہ قلب میں ہے اور انہیں اسٹنٹ ڈالنے سے متعلق تشخیص کی گئی ہے۔

اس دوران ایف آئی اے پراسیکیورٹر نے کہا کہ ملزمان سے تفتیش کرنی ہے، خدشہ ہے کہ ملزمان فرار یا روپوش ہو سکتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر ناصر جنجوعہ اور خرم یوسف کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست خارج کر دی، جس کے بعد ایف آئی اے نے انہیں گرفتار کرلیا۔

علاوہ ازیں ویڈیو اسکینڈل میں میاں طارق کو جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج عائشہ کنڈی نے ملزم کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع کردی۔

عدالت نے میاں طارق کو 16 ستمبر کو دوربارہ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

جج ارشد ملک مبینہ ویڈیو کا معاملہ

واضح رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو کیس: سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرلیں

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا تھا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔

جج ارشد ملک نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ ان کی مسلم لیگ (ن) کے ناصر بٹ اور ان کے بھائی عبداللہ بٹ کے ساتھ پرانی شناسائی ہے اور دونوں بھائی مختلف اوقات میں مجھ سے مل بھی چکے ہیں۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانےکا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت قانون نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا

بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ فروری 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 میں بطور جج تعینات ہونے کے بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے رابطہ کیا اور ملاقات کی۔

ساتھ ہی اپنے بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ اس ملاقات میں ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں موجود بااثر شخصیت کو خصوصی اور ذاتی طور پر میرا نام تجویز کرنے کی وجہ سے مجھے احتساب عدالت نمبر 2 میں جج تعینات کیا گیا، اس حوالے سے ناصر جنجوعہ نے وہاں موجود ایک اور شخص سے کہا تھا کہ میں نے آپ کو چند ہفتے پہلے کہا تھا نا کہ محمد ارشد ملک احتساب عدالت میں جج تعینات ہوگا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔

ساتھ ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر پڑا، ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ احتساب عدالت کے جج کی طرف سے دیئے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کردے، وہ دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھ کر بھی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے، ہائی کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ بھی بھیج سکتی ہے اور ٹرائل کورٹ فریقین کو سن کر کیس سے متعلق فیصلہ کر سکتی ہے۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر ریفرنسز پر 19 دسمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 24 دسمبر 2018 کو سنایا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں