وفاقی وزیر کا احتساب کے ادارے کو لگام دینے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2019
اپوزیشن نیب سے کیا امید رکھتی ہے جہاں 70 سے 80 فیصد ملازمین سابق چیئرمین کے خود منتخب کردہ ہیں — فائل فوٹو/ڈان نیوز
اپوزیشن نیب سے کیا امید رکھتی ہے جہاں 70 سے 80 فیصد ملازمین سابق چیئرمین کے خود منتخب کردہ ہیں — فائل فوٹو/ڈان نیوز

اسلام آباد: ملک میں جہاں ایک جانب ایک فوجی آمر کا 2 دہائیوں قبل بنایا گیا قومی احتساب آرڈیننس میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کردیا گیا تو وہیں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر نے احتساب کے ادارے کو لگام دینے کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری کو صحت کی سہولیات دینے کی فراہمی سے انکار پر سینیٹ میں بحث کے دوران وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) حکومت کے کنٹرول میں نہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ان کیسز کا سامنا ہے جو انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نیب کو لگام دینے کی ضرورت ہے، آپ اس نیب سے کیا امید رکھتے ہیں جس میں 70 سے 80 فیصد ملازمین سابق چیئرمین کے منتخب کردہ ہیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے یہ کیسز نہیں بنائے اور حکومت نیب کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی'۔

مزید پڑھیں: ’حکومت کا نیب قوانین میں ترمیم کا فیصلہ، کابینہ سے منظوری بھی مل گئی‘

انہوں نے کہا کہ 'پارلیمنٹ بالا دست تھی اور اس کے پاس یہ حق تھا کہ کسی کے خلاف تحقیقات نہیں ہوگی، آئیں، ہم مل کر ان قیدیوں کو رہا کرکے جیل خالی کریں یا پھر امیروں اور غریبوں کے لیے علیحدہ قانون بنائیں'۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ ایوان بالا میں پی پی پی کی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے اٹھایا اور مطالبہ کیا کہ آصف علی زرداری کو فوری طور پر جیل سے ہسپتال منتقل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 'سابق صدر آصف علی زرداری کو ڈاکٹروں کی تجویز کے بعد بھی جیل بھیج دیا گیا ہے جبکہ عدالتی احکامات کے باوجود ان کے اہلخانہ کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جارہی ہے'۔

دوران اجلاس سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجا ظفرالحق کا کہنا تھا کہ زیر حراست سیاستدانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ دردناک ہے، ان کا علاج قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ مسلم لیگ (ن) کے زیر حراست رہنما رانا ثنا اللہ کو اپنے سسر کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی، حکومت کا اپوزیشن سے برتاؤ ایسا ہے جیسا بھارت کا کشمیریوں کے ساتھ ہے۔

اس موقع پر سینیٹر اور سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں پر کرفیو لگا دیا گیا ہے جس کے باعث آنے والی نسل قانون ساز بننے سے کترائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: مجوزہ نیب قوانین: نجی شہری احتساب کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہوں گے

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق صدر آصف زرداری کو جیل بھیجنے کے بجائے نظر بند کیا جاسکتا تھا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت جو روایت ڈال رہی ہے مستقبل میں یہ اسی کو لے ڈوبے گی۔

بعد ازاں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے سابق چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے لیے بل پیش کیا۔

بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی میں پیش کردیا گیا، جس کے تحت نیب کو کم از کم 50 کروڑ روپے کے کیسز دیکھنے کی اجازت ہوگی جبکہ چیئرمین نیب سے گرفتاری کے اختیارات بھی واپس لے لیے جائیں گے۔

اعظم سواتی نے ایوان کو بتایا کہ حکومت بھی نیب آرڈیننس میں ترامیم کے لیے اپنا بل پیش کرنا چاہتی ہے تاہم وہ اپوزیشن کے بل کی مخالفت نہیں کرتی۔

علاوہ ازیں سینیٹ میں بلوچستان سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بڑھانے سمیت متعدد دیگر بل بھی پیش کیے گئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Sep 04, 2019 06:12pm
ارکین اسمبلی نے خود ہی قانون بنایا تھا کہ فوج، کورٹ کے خلاف نیب کارروائی نہیں ہوگی اور اب اس میں سرمایہ داروں، بیوروکریٹس اور اسٹاک ایکسچینج کے دلالوں(بروکرز) کو بھی شامل کیا جارہا ہے کہ ان کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہوگی۔ اگر اب قومی اسمبلی و سینیٹ نے یہ بل منظور کرلیا تو بعد میں رونا دھونا کیوں۔ بدعنوانوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور سب کے خلاف ہونی چاہیے