پاکستان اور امریکا کو محتاط تعلقات برقرار رکھنے ہوں گے، جیمز میٹس

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2019
جیمز میٹس ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں بطور سیکریٹری دفاع شامل رہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
جیمز میٹس ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں بطور سیکریٹری دفاع شامل رہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکا کے سابق سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ دونوں ممالک معمولی توقعات کے ساتھ محتاط انداز میں تعلقات برقرار رکھیں۔

اپنی سوانح حیات ’کال سائن چاؤس‘ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے سیکریٹری دفاع نے لکھا کہ نئی دہلی کے ساتھ پیچیدہ تعلقات نے اسلام آباد کو کابل میں دوستانہ حکومت کی خواہش پر مجبور کیا۔

جمیز میٹس کا تعلق امریکا کی مرین کارپس سے ہے جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی کابینہ میں بطور سیکریٹری دفاع شامل کیا تھا، تاہم انہوں نے جنوری 2019 میں افغانستان کے معاملات پر امریکی صدر سے اختلافات پیدا ہونے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

افغانستان میں امریکی فوج اور امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کی سربراہی کرنے والے جیمز میٹس افغانستان سے امریکی فوج کے فوری انخلا کے مخالف رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا امریکی شہریوں کو 5 سال کا ویزا دینے کا فیصلہ

اپنی سوانح حیات میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ بلآخر یہ ہمارا مشترکہ مفاد ہے کہ ہم تعاون کی معمولی توقعات کے ساتھ اپنے محتاط تعلقات برقرار رکھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں لیکن انہیں حل کرنے کے لیے ہمارا اختلاف بہت گہرا اور بھروسہ بہت کم ہے اور یہی آج کل ہمارے تعلقات کی حالت ہے‘۔

اپنی کتاب کی رونمائی کے دوران انہوں نے امریکی کونسل برائے خارجہ امور کے بحث و مباحثے میں بھی حصہ لیا جہاں ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنی کتاب میں ’پاکستان کو سب سے خطرناک ملک‘ کیوں لکھا؟

انہوں نے جواب میں پاکستان میں بنیاد پرستی کو ہی اس کے سب سے خطر ناک ملک ہونے کی وجہ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا ایف-16 طیاروں کیلئے پاکستان کی تکنیکی مدد کا اعلان

امریکی جنرل نے کہا کہ ‘پاکستان میں بنیاد پرستی ہے اور ویسے بھی ان کی فوج کے کچھ ممبران کا بھی یہی نظریہ ہے، انہیں یہ احساس ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے اور وہ اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں‘۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے جیمز میٹس نے کہا کہ ’جب آپ بنیاد پرستی کو لیتے ہیں اور اس میں دنیا کی سب سے تیزی سے ایٹمی ہتھیار بنانے والی صلاحیت کو شامل کرتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ہم یہ دیکھیں گے کہ آخر کیوں ہم ہتھیاروں کے کنٹرول اور جوہدری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی بات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک بہت ہی خطرناک مسئلہ ہے جس کے بارے میں شاید ہی کوئی لکھ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا اور پاکستان کے درمیان تلخیوں کی وجہ صرف افغانستان نہیں

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہت پیچیدہ رہے ہیں۔

اپنی کتاب میں متعدد مرتبہ جیمز میٹس نے پاکستان اور امریکا کے عسکری تعلقات پر روشنی ڈالی تاہم انہوں نے دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کے بارے میں کم اظہار خیال کیا۔

انہوں نے لکھا کہ ’پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے اپنی پیدائش سے ہی اپنے آپ سے کوئی محبت نہیں تھی، اور سیاست میں خود کو تباہ کرنے کا ایک سلسلہ چلتا رہا ہے‘۔

جیمز میٹس کا اپنی کتاب میں کہنا تھا کہ ’پاکستان کے پاس ایسی لیڈرشپ ہی موجود نہیں، جو قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کا معترف

پاکستان کی بھارت کے لیے پالیسی سے متعلق اپنی کتاب میں امریکا کے سابق سیکریٹری دفاع نے لکھا کہ ’پاکستان اپنے پڑوسی بھارت کے ساتھ اپنی دشمنی کی بنیاد پر تمام جغرافیائی سیاست کو دیکھتا ہے‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان نے افغانستان کے لیے اپنی پالیسی بھی اس تناظر میں ترتیب دی ہے جبکہ اسلام آباد کابل میں ایک حامی حکومت چاہتا ہے جو افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کے خلاف مزاحمت کرے‘۔

جیمز میٹس نے اعتراف کیا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران افغانستان میں نیٹو کے ہلاک فوجیوں کی تعداد سے زیادہ اپنی مغربی سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے پاکستانی فوجی شہید ہوئے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان سوچتا ہے کہ وہ دہشت گردی کو کنٹرول یا پھر ان کے ساتھ جوڑ توڑ کرسکتا ہے، تاہم دہشت گردی وہ بیج ہے جو ایک دفعہ بو دیا جائے تو جب وہ پھلتا پھولتا ہے تو اسے نہ صرف پاکستان کی خفیہ سروس بلکہ دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی'۔


یہ خبر 5 ستمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں