پاکستان کی 'سرپرائز' دینے کی صلاحیت سے تو دنیا واقف ہے۔ یہاں حیران کر دینے والے فیصلوں کادائرہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ اب تو کھیل خاص طور پر کرکٹ تک پھیل گیا ہے۔

ورلڈ کپ 2019ء کے بعد جب ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کو فارغ کیا گیا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اب ان دونوں اہم عہدوں پر ایک شخصیت کا تقرر ہوگا اور وہ شخصیت مصباح الحق ہوگی۔ جی ہاں! پاکستان کرکٹ کی 'میوزیکل چیئرز' پر ایک مرتبہ پھر غیر ملکی کے بعد ایک مقامی کوچ کو بٹھا دیا گیا ہے بلکہ اسے اتنا بااختیار بنا دیا گیا ہے کہ میدان کے اندر اور باہر کئی حلقے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔

مصباح کو ہیڈ کوچ کے ساتھ ساتھ چیف سلیکٹر کے اختیارات بھی دینا پاکستان کرکٹ بورڈ کا ایک منفرد فیصلہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بورڈ اب بھی مصباح پر کتنا اعتماد کرتا ہے۔ بظاہر یہ فیصلہ اتنا ہی متنازع لگتا ہے جتنا 9 سال پہلے مصباح کو کپتان بنانے کا فیصلہ تھا لیکن جس طرح مصباح نے بحیثیت کپتان اپنا لوہا منوایا تھا، امید یہی ہے کہ ایک مرتبہ پھر وہ خود کو ثابت کرکے دکھائیں گے۔

کپتان کی حیثیت سے اپنے 7 سالہ دور میں مصباح نے پاکستان کرکٹ پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ انہی کے دور میں پاکستان ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن تک پہنچا تھا۔ بطور کپتان مصباح نے جو کچھ حاصل کیا تھا، اب کوچ و سلیکٹر کی حیثیت سے اس کا تسلسل جاری رکھیں گے اور جو حاصل کرنے میں ناکام رہے، نئی ذمہ داریوں کے ساتھ ان منازل کو بھی پانے کی کوشش کریں گے۔

لیکن یاد رہے کہ مصباح ہمیشہ سے ناقدین کے لیے آسان ہدف رہے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی یا زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ چنانچہ اب دہری ذمہ داری کی وجہ سے انہیں دہری تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ مصباح خود بھی اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ وہ کرکٹ کے میدان میں مسلسل تنقید جھیلنے کا عالمی نہیں تو قومی ریکارڈ ضرور اپنے پاس رکھتے ہیں۔

مصباح پر تنقید کے جواز پہلے سے موجود ہیں اور یہ کافی مضبوط بھی ہیں جیسا کہ مصباح الحق کے کوچنگ تجربے ہی کی بات کرلیں۔ مصباح کسی بھی سطح پر کسی بھی ٹیم کی کوچنگ کا سرے سے کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ ان کے ریکارڈ پر حال ہی میں کیے گئے پی سی بی کے لیول-2 کوچنگ کورس کے علاوہ کچھ نہیں ہے لہٰذا جہاں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، وہیں ناکامی کا احتمال بھی بہت زیادہ ہے۔

پھر مصباح کا ایک اور منفی پوائنٹ یہ ہے کہ وہ ورلڈ کپ کے بعد کوچ مکی آرتھر کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی کے بھی رکن تھے۔ اس لحاظ سے وہ کوچ کے عہدے کے لیے درخواست نہیں دے سکتے تھے کیونکہ یہ 'مفادات کا تصادم' ہوتا۔ تاہم انہوں نے ایسا کیا اور یہ بات مصباح جیسے اصول پسند فرد کے شایانِ شان نہیں ہے۔

ویسے مصباح کی تقرری نے اچھے بھلے کرکٹ دماغوں کو چکرا دیا ہے۔ وہ فیصلے سے خوش بھی نہیں لیکن نااُمید بھی نہیں۔ لیکن بات اصول کی ہے کہ میرٹ پر مصباح وہ تجربہ ہی نہیں رکھتے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کو مطلوب تھا۔ ذرا وہ اشتہار دیکھیں جو ہیڈ کوچ کی آسامی کے لیے شائع ہوا تھا۔ اس میں جو بھی شرائط تھیں، مصباح ان میں سے کتنی شرائط پر پورا اترتے ہیں؟ چلیں کم از کم لیول II کوچنگ کی سند تو ہے لیکن کیا مصباح بین الاقوامی سطح پر کوچنگ کرنے کا 3 سال کا تجربہ رکھتے ہیں؟ نوجوان کھلاڑیوں کی بین الاقوامی معیار کی بنیاد پر کوچنگ کا وسیع تجربہ؟ یا پھر پلاننگ اینڈ مانیٹرنگ کا کوئی ریکارڈ؟ آئی سی سی کے گلوبل ایونٹس میں کوچنگ کا کوئی تجربہ؟ ان میں سے کتنے تجربے ہیں جو مصباح کے پاس ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ کے کوچ کے معیارات پر بھی پورا نہیں اترتے کہ پی سی بی اس کے لیے بھی کوچنگ کا 3 سال کا تجربہ مانگتا ہے۔

یہ بورڈ کی انتہا درجے کی غیر سنجیدگی ہے کہ اس نے اتنے اہم عہدے کے لیے اُن معیارات پر بھی سودے بازی کی، جو خود اس کے اپنے مرتب کردہ تھے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ جیسا اہم عہدہ ہرگز تجربات کرنے کے لیے نہیں ہے۔ مصباح خود بھی ایک اصول پسند فرد ہیں اور انہوں نے اپنے بارے میں کئی لوگوں کی رائے بدلی ہے۔

انہیں میرٹ پر پورا اترے بغیر قومی کرکٹ ٹیم میں اتنا بڑا عہدہ پانے کی نہ خواہش کرنی چاہیے تھی اور نہ ہی کسی دوسرے کے منصوبے پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ یا کوئی پی ایس ایل فرنچائز انہیں کوچ بنانے کی خواہشمند ہے تو مصباح وہاں سے تجربہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن قومی ٹیم کو تختہ مشق نہیں بنانا چاہیے تھا۔

اس پورے منظرنامے میں یہ بات اچھی طرح واضح ہو چکی ہے کہ پی سی بی کے طاقتور حلقے مصباح کو ایک مضبوط پوزیشن پر رکھنا چاہتے تھے۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ کر بھی لیا گیا تھا تو مصباح کے اختیارات کو چیف سلیکٹر کے عہدے تک ہی محدود رکھنا چاہیے تھا۔ ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر دونوں بڑے عہدے کسی ایک شخص کے ہاتھ میں دے کر ہرگز کوئی اچھی روایت قائم نہیں کی گئی ہے۔

ہیڈ کوچ کے عہدے کے لیے جو درخواستیں موصول ہوئیں، ان میں سب سے موزوں امیدوار ڈین جونز نظر آتے تھے۔ وہ کوچنگ کا وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں اور پاکستان کرکٹ کے مزاج سے بھی واقف ہیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ 2 مرتبہ انہی کی کوچنگ میں پی ایس ایل چیمپئن بنا۔ وہ اور مصباح اسلام آباد یونائیٹڈ میں ساتھ بھی رہے ہیں، اس لیے یہ قومی ٹیم کے لیے ایک اچھا کمبی نیشن ہوتا۔

موجودہ حالات کپتان سرفراز احمد کے لیے بھی اچھے نہیں دکھائی دیتے کہ جو ورلڈ کپ کے بعد ویسے بھی تنقید کی زد میں ہیں اور یہ خبریں عام ہیں کہ انہیں ایک یا دو طرز کی کرکٹ میں قیادت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ مصباح کی مضبوط حیثیت سے آمد اور وقار یونس کی باؤلنگ کوچ کے طور پر واپس سے لگتا ہے کہ یہ خبریں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔

نئے ڈومیسٹک اسٹرکچر کے اعلان کے بعد مصباح الحق کی تقرری مستقبل کے لیے بڑے اقدامات کو ظاہر کرتی ہے لیکن یاد رکھیں کہ نتائج فوراً نہیں آئیں گے۔ 3 سال کے عہدے کے لیے کوچ+چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مصباح کو معاملات کو مکمل گرفت میں لینے میں کچھ وقت لگے گا اور یہی وہ نازک ترین دور ہوگا جسے ان کے ناقدین استعمال کریں گے۔ خیر، مصباح نے ناقدین کی پرواہ کب کی ہے جو اب کریں گے؟

تبصرے (0) بند ہیں