اسکاٹ لینڈ کی تازہ پانی کی جھیل لاک نیس کا نظارہ جادوئی اثر رکھتا ہے اور اس کے ساتھ موجود تاریخی قلعہ قرون وسطیٰ کے عہد کا ہے اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔

مگر اس جھیل کو دنیا بھر میں ایک ماورائی عفریت لاک نیس مونسٹر جسے نیسی کا نام دیا گیا، کے باعث زیادہ جانا جاتا ہے۔

اور اب سائنسدانوں نے اس کی حقیقت جاننے کا دعویٰ کیا ہے۔

نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی کے پروفیسر نیل گمیل 2018 سے اس ماورائی عفریت کی حقیقت جاننے کے لیے کام کررہے تھے اور اس کے لیے جھیل کے پانی سے ڈی این اے کے نمونے اکٹھے کیے گئے۔

اور طویل محنت کے بعد نتائج کا اعلان کرتے ہوئے اس خیال کو مسترد کردیا گیا ہے کہ اس جھیل میں کوئی بڑا جانور جیسے ڈائنا سور پایا جاتا ہے۔

ویسے اس جھیل کی 1934 کی مشہور زمانہ تصویر (جسے جعلی قرار دیا جاچکا ہے)میں جو جاندار نظر آتا ہے وہ لمبی گردن والا ڈائنا سور ہی لگتا ہے مگر پروفیسر نیل گمیل کے مطابق وہ تو بس ممکنہ طور پر ایک بڑی بام مچھلی ہی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس جھیل میں بام مچھلی یا ایل کے ڈی این اے نمونے بہت زیادہ ملے ہیں اور جھیل کے جس مقام سے نمونہ لیا گیا، وہاں ایل کا ڈین این اے دریافت ہوا اور ہم ان کے حجم کو جان کر حیران رہ گئے۔

انہوں نے کہا 'ہم اس امکان کو مسترد نہیں کرسکتے کہ ایک بڑی ایل لاک نیس میں موجود ہوسکتی ہے، مگر ہم نہیں جانتے کہ ہم نے جو نمونے اکٹھے کیے وہ کسی بڑی ایل کے تھے یا عام ایل کے، تو اب بھی کچھ ایسا ہے جو ہم جان نہیں سکے'۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا اگرچہ ایک بڑی ایل کی موجودگی کا خیال دہائیوں سے سامنے آرہا ہے مگر آج تک اس جھیل سے کسی بڑی بام مچھلی کو پکڑا نہیں گیا۔

اس تحقیقی ٹیم نے گزشتہ سال جون میں ماحولیاتی ڈی این اے کے نمونے جمع کیے تھے، اس طرح کا عمل اکثر سمندری جاندار جیسے وہیل اور شارک مچھلیوں کی مانیٹرنگ کے لیے کیا جاتا ہے۔

یعنی جب کوئی جاندار کسی ماحول یا مقام سے گزرتا ہے تو وہ اپنی جلد، پنجوں، پروں، کھال، پیشاب اور پاخانے کی شکل میں ڈی این اے کے ذرات چھوڑ دیتا ہے۔

لاک نیس جھیل میں کسی عفریت کی موجودگی کا سب سے پہلا تحریری ریکارڈ چھٹی صدی عیسوی کا ہے جو ایک آئرش سینٹ کولمبا نے لکھتے ہوئے ایک پانی کے عفریت کا ذکر کیا تھا۔

مگر نیسی کی سب سے مشہور تصویر 1934 میں لی گئی اور 60 سال بعد علم ہوا کہ وہ جعلی ہے کیونکہ اسے لینے کے لیے ایک سمندری عفریت کے ماڈل کو کھلونا آبدوز پر لگا دیا گیا تھا۔

2003 میں بڑ ے پیمانے میں سائنسی تحقیق کی گئی جس کے دوران سیٹلائیٹ ٹریکنگ اور سونار بیمز کا استعمال کیا گیا جبکہ ایک اور تحقیق میں جدید ترین میرین ڈرون استعمال کیا گیا مگر کبھی کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔

تبصرے (0) بند ہیں