طالبان سے ہونے والے 'مذاکرات' کی تاریخ

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2019
امریکی صدر کے فیصلے سے کسی بھی نئے معاہدے سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں — فوٹو: اے پی
امریکی صدر کے فیصلے سے کسی بھی نئے معاہدے سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں — فوٹو: اے پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان رہنماؤں سے آج ہونے والی 'خفیہ ملاقات' اچانک منسوخ کردی لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکا نے طالبان سے خفیہ ملاقات طے کی ہو، ماضی میں بھی ایسی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان پر امریکی حملے سے قبل واشنگٹن، طالبان سے وعدے کرچکا تھا جس کا نتیجہ مواقع ضائع ہونے کے طور پر سامنے آیا ہے اور ساتھ ہی امریکی صدر کے فیصلے سے کسی بھی نئے معاہدے سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔

9/11 سے قبل خالی وعدے

اس حوالے سے سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ نے 11 ستمبر 2001 کو کالعدم تنظیم القاعدہ کی جانب سے حملوں سے قبل کئی مرتبہ طالبان سے خفیہ رابطے کیے تھے۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان رہنماؤں کی 'خفیہ ملاقات' منسوخ، افغان مذاکراتی عمل بھی معطل

واشنگٹن کو خدشہ تھا کہ طالبان، افغانستان کی سرزمین کو جنگجوؤں، خاص طور پر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے محفوظ ٹھکانوں کے طور پر استعمال ہونے کی اجازت دے رہے تھے۔

9/11 تک امریکا نے القاعدہ سے متعلق وعدوں کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔

9/11 کے بعد مواقع ضائع ہوگئے

افغانستان میں امریکا کے حملے کے بعد طالبان نے ایمنسٹی کے بدلے میں ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن امریکا نے طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کا عزم کرتے ہوئے پیشکش مسترد کردی تھی۔

انہوں نے ایک خونی بغاوت کا آغاز کیا تھا جس سے افغان سیکیورٹی فورسز کو بھاری نقصان پہنچا اور امریکا اس جنگ کی دلدل میں پھنس گیا۔

بعدازاں 2004 میں اور 2011 میں مذاکرات کی کوششیں کی گئیں جو ناکام ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: کابل کو امریکا طالبان معاہدے پر ’تشویش‘، وضاحت مانگ لی

2013 میں طالبان نے قطر میں دفتر کھولا تھا لیکن دوحہ میں موجود دفتر سے امریکا سے مذاکرات کی کوشش اس وقت ناکام ہوگئی جبکہ انہوں نے اسے غیر سرکاری سفارت خانہ قرار دیا، جو کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے لیے ایک ناقابل قبول پوزیشن تھی۔

مذاکرات کا بہترین موقع شاید اس وقت آیا جب 2015 میں پاکستان میں افغان حکومت اور طالبان کی پہلی مرتبہ براہ راست بات چیت ہوئی تھی۔

تاہم طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کی دو سال قبل ہلاکت کی خبر منظرِ عام پر آنے سے بات چیت بے نتیجہ ختم ہوگئی تھی کیونکہ طالبان نے ملا عمر کی ہلاکت کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔

فریبی جنگ بندیاں

2015 میں افغان صدر اشرف غنی نے امن مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کے تحت طالبان کو سیاسی جماعت تسلیم کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے اس پیشکش کو نظر انداز کردیا تھا۔

2018 میں انہوں نے مذکورہ پیشکش کو دہرایا اور عیدالفطر کے موقع پر جنگ بندی کی تجویز دی تھی۔

طالبان نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن عیدالفطر پر 3 روز کے لیے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

2001 کے بعد یہ افغانستان میں امن کے پہلے 3 دن تھے اور اس دوران افغان، طالبان جنگجوؤں کو آئسکریم دیتے ہوئے دکھائی دیے لیکن اس کے بعد بدامنی کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔

مئی 2019 میں لویہ جرگہ (سینئر افغان معززین کی اسمبلی) نے ’ فوری اور مستقل‘ جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا جسے طالبان نے واضح طور پر مسترد کردیا تھا۔

امن معاہدے کا سفر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے متعلق مسئلے کے حل کی کوششوں کے تحت ستمبر 2018 میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔

دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے مختلف مراحل میں اس حوالے سے امیدوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔

یہ مذاکرات امریکی فوجیوں کے انخلا کے بدلے میں انسداد دہشت گردی، جنگ بندی اور کابل حکومت سے بات چیت کے وعدوں پر مرکوز تھے۔

مزید پڑھیں: طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے قریب ہیں، زلمے خلیل زاد

اس دوران طالبان کا اصرار رہا ہے کہ غیر ملکی فورسز کا انخلا ایک پیشگی شرط ہے۔

تاہم زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ واشنگٹن، امریکی فورسز کی واپسی کا معاہدہ نہیں بلکہ امن کا جامع معاہدہ کرنے کی کوشش میں ہے اور وائٹ ہاؤس کے لیے 2020 میں ہونے والے انتخابات کی مہم میں حصہ لینے کے لیے ابتدائی معاہدے تک پہنچنے کے لیے بے چین ہے۔

وقتی امید

طالبان ایک عرصے تک اشرف غنی کی حکومت کو واشنگٹن کی کٹھ پتلی قرار دے کر مذاکرات سے انکار کرتے رہے ہیں۔

تاہم گزشتہ برس دوحہ میں مذاکرات میں تھوڑی پیشرفت آئی تھی اور طالبان نے ماسکو میں 2 مرتبہ افغانستان کے اپوزیشن ارکان سے ملاقات کی تھی۔

جولائی میں طالبان جنگجوؤں نے دوحہ میں افغان حکومت کے ارکان سے ملاقات کی تھی جو ذاتی حیثیت میں آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کے خودکش حملے میں دو غیر ملکی فوجیوں سمیت 12 افراد ہلاک

خیال رہے کہ کابل حکومت کی جانب سے دوحہ میں منعقد ہونے والے مذاکرات سے ایک جانب کردینے پر برہمی کا اظہار کیا گیا تھا لیکن امریکا-طالبان معاہدے میں انٹرا افغان مذاکرات میں پیشرفت کی پیش گوئی شامل ہے۔

رواں برس جولائی میں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔

7 ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان اور افغان حکومت سے خفیہ اجلاس معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک برس کی سفارتکاری کا دروازہ اچانک بند کردیا۔

امریکی صدر نے کہا کہ 'وہ آج امریکا آرہے تھے، بدقستمی سے جھوٹے مفاد کے لیے انہوں نے کابل میں حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں ہمارا ایک عظیم سپاہی سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے'۔

تبصرے (0) بند ہیں