افغان امن مذاکرات معطل: طالبان کی امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2019
طالبان کے مطابق مسقتبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی
طالبان کے مطابق مسقتبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی

طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغان امن مذاکرات کا سلسلہ معطل کرنے پر ’پہلے سے زیادہ سخت نتائج‘ کی دھکمی دے دی۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں ’غیر معمولی نقصان‘ کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مسقتبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔

مزیدپڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان رہنماؤں کی 'خفیہ ملاقات' منسوخ، افغان مذاکراتی عمل بھی معطل

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے طالبان رہنماؤں سے آج ہونے والی 'خفیہ ملاقات' منسوخ کردی تھی۔

جس پر ایک جاری بیان میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ امریکی ایک مرتبہ پھر مذاکرات کے لیے آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 18 برس پر مشتمل ہماری لڑائی سے امریکیوں پر ثابت ہوچکا ہوگا کہ جب تک افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کا انخلا نہیں ہوجائے گا تب تک اطمینان نہیں ملے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی عظیم مقصد کے لیے اپنے موجودہ ’جہاد‘ کو جاری رکھیں گے۔

علاوہ ازیں امارات اسلامیہ افغانستان کی ویب سائٹ پر طالبان نے جاری بیان میں کہا کہ ’کل تک امریکا کی مذاکراتی ٹیم پیش رفت سے راضی تھی جبکہ گفتگو خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی تھی، فریقین معاہدہ کے اعلان اور دستخط کی تیاریوں میں مصروف تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کابل کو امریکا طالبان معاہدے پر ’تشویش‘، وضاحت مانگ لی

مزید بتایا گیا کہ ’معاہدے پر دستخط اور اعلان کے بعد ہم نے بین الافغان مذاکرات کی پہلی نشست کے لیے 23 سمتبر کی دن مقرر کیا تھا‘۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’خطے، دنیا کے دیگر ممالک اور عالمی تنظیموں نے بھی افغان امن عمل کی حمایت کی تھی‘۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’اب چونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امارت اسلامیہ سے مذاکراتی سلسلے کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس سے سب سے زیادہ نقصان خود واشنگٹن ہی کو پہنچے گا‘۔

افغان طالبان کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ امریکی صدر کی جانب سے امریکا کے دورے کی دعوت ہمیں اگست کے آخر میں ڈاکٹر زلمے خلیل زاد نے دی تھی اور ہم نے دورے کو دوحہ میں معاہدے کے دستخط تک مؤخر کردیا تھا۔

اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہا تھا کہ 'یہ بات شاید کسی کو بھی معلوم نہیں کہ طالبان کے اہم رہنما اور افغان صدر مجھ سے کیمپ ڈیوڈ میں علیحدہ علیحدہ خفیہ ملاقات کرنے والے تھے'۔

مزیدپڑھیں: طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے قریب ہیں، زلمے خلیل زاد

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ آج امریکا آرہے تھے، بدقستمی سے جھوٹے مفاد کے لیے انہوں نے کابل میں حملے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں ہمارا ایک عظیم سپاہی سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے'۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'میں یہ ملاقات فوری طور پر منسوخ کرتا ہوں اور امن مذاکرات بھی معطل کرتا ہوں'۔

دوسری جانب الجریزہ میں شائع رپورٹ کے مطابق دوحہ میں طالبان کے ترجمان نے بتایا کہ موجودہ صورتحال پر صلح و مشورے کے لیے اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امریکی صدر کے اقدام پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے۔

دوحہ سے طالبان کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں امن مذاکرات معطل کرنے سے امریکا کا امن کے خلاف موقف ثابت ہوگیا۔

طالبان معاہدہ کابل میں غیر مقبول

طالبان کے ساتھ معاہدے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کے کئی دور کر چکے ہیں اور اس دوران تقریباً ایک سال کا عرصہ گزار چکے ہیں کیونکہ ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں جاری 18 سالہ طویل امریکی جنگ کا خاتمہ ہے۔

یکم ستمبر کو امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان معاہدے کی 'دہلیز' پر ہیں جو تشدد کو کم کرے گا اور یہ 'پائیدار' امن کے لیے ایک راستہ ہوگا۔

بعد ازاں امریکی نمائندہ خصوصی نے کابل میں افغان حکام کو معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا جس پر امریکا، فوج کے انخلا کی صورت میں طالبان کے ساتھ رضامند ہوا تھا۔

افغان حکومت نے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے ممکنہ معاہدے کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکام کو اس حوالے سے لاحق خطرات کے بارے میں مزید معلومات جاننے کی ضرورت ہے۔

یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ اشرف غنی اور ان کی حکومت کو امریکا اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات سے بالکل علیحدہ رکھا گیا تھا کیونکہ طالبان، افغان حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے صرف امریکا کے ساتھ معاہدے پر زور دیتے ہیں۔

معاہدے کے مندرجات کے مطابق پینٹاگون آئندہ برس تک افغانستان میں موجود اپنے 5 فوجی اڈوں سے 13 ہزار فوجی اہلکار واپس بلالے گا جبکہ طالبان سیکیورٹی کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔

عسکریت پسندوں نے کہا تھا کہ وہ القاعدہ کو چھوڑ دیں گے، داعش سے لڑیں گے اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کو افغانستان کی زمین استعمال کرنے سے روکیں گے۔

طالبان حملہ

یاد رہے کہ 5 ستمبر کو کابل میں طالبان کے خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں امریکا اور رومانیہ کے 2 فوجی اہلکاروں سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے۔

خودکش کار بم دھماکا مصروف سفارتی علاقے میں ہوا تھا جہاں امریکی سفارتخانہ بھی قائم ہے جبکہ ایک ہفتے کے دوران یہ اس نوعیت کا دوسرا حملہ تھا۔

یہ چوتھا امریکی اہلکار تھا جو گزشتہ دو ہفتے کے دوران افغانستان میں ہونے والے حملوں میں نشانہ بنا۔

طالبان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے 'غیر ملکیوں' کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا جو کابل میں سخت سیکیورٹی والے علاقے شاشدرک میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے جہاں افغان قومی سلامتی کے حکام کے دفاتر ہیں۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ خودکش بمبار کی گاڑی چیک پوسٹ کی جانب مُڑی اور دھماکے سے اڑ گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں